بھارت، پاکستان ماضی کو دفن کرکے مستقبل کی سوچیں، نواز شریف
18 اکتوبر 2024وزیر اعظم شہباز شریف کے بھائی اور حکمران اتحاد کی قیادت کرنے والے پی ایم ایل (این) کے سربراہ شریف نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان کے اجلاس کی رپورٹنگ کے لئے پاکستان جانے والے بھارتی صحافیوں سے بات چیت کی۔ انہوں نے ایس سی او اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی شرکت کو "اچھی شروعات" قرار دیا اور کہا کہ "دونوں ممالک کو یہاں سے آگے بڑھنا چاہیے۔"
پاکستان کی خارجہ پالیسی: خدشات اور مشکلات
نواز شریف نے بھارتی صحافیوں کے ایک گروپ سے کہا، "بات جو ہے ایسے ہی بڑھتی ہے… بات ختم نہیں ہونی چاہیے… اچھا ہوتا اگر مودی صاحب خود تشریف لاتے۔"
وزیر اعلیٰ پنجاب کے دفتر میں صحافیوں سے ملاقات کے دوران نواز شریف کی صاحبزادی اور وزیر اعلیٰ مریم نواز بھی موجود تھیں۔
پاکستان دوستانہ تعلقات رکھتا تو آئی ایم ایف سے زیادہ پیسے ہم دیتے، بھارتی وزیر
وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ اپنی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے، جنہوں نے دسمبر 2015 میں پاکستان کا اچانک دورہ کیا تھا، نواز شریف نے کہا،"ہم نے دھاگے کو جہاں چھوڑا تھا اسے اٹھا لینا چاہئے۔" انہوں نے مزید کہا، "ہم نے 75 سال کھوئے ہیں، اب (ہمیں) اگلے 75 سالوں کے بارے میں سوچنا چاہیے۔"
انہوں نے کہا کہ "میں نے تعلقات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی، لیکن اس میں بار بار خلل پڑا۔" نواز شریف کا اشارہ وزرائے اعظم اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کے بعد کارگل جنگ اور مبینہ طور پر پاکستان سے سرگرم دہشت گردوں کی طرف تھا۔
مستقبل کی طرف دیکھنے پر زور
پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا، "ہم پڑوسی ہیں، ہم اپنے پڑوسیوں کو نہیں بدل سکتے۔ نہ پاکستان ایسا کر سکتا ہے نہ بھارت۔ ہمیں اچھے پڑوسیوں کی طرح رہنا چاہیے۔ ہمیں ماضی میں نہیں جانا چاہیے، بلکہ مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے۔"
انہوں نے کہا کہ "دونوں طرف گلے شکوے ہیں، ہمیں ماضی کو دفن کردینا چاہیے، ہمیں مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے... میرا ماننا ہے کہ بھارت، پاکستان اور پڑوسیوں کو ایسا ہی سلوک کرنا چاہیے جیسا کہ بھارت کی اپنی ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ کرتی ہیں۔" انہوں نے کہا کہ تجارت، سرمایہ کاری، صنعت، سیاحت، بجلی جیسے شعبوں میں دو طرفہ تعاون کے کافی امکانات ہیں۔
دفعہ 370 اور کشمیر
دفعہ 370 اور کشمیر کے بارے میں پوچھے جانے پر، پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے یہ کہتے ہوئے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ ان مسائل پر بات کرنے کا یہ موقع نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایسے الفاظ استعمال کیے جن سے تعلقات خراب ہوئے۔ دو ملکوں اور پڑوسیوں کے لیڈروں کے طور پر، ہمیں الفاظ کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ وہ ستمبر 2018 میں عمران خان کی ایک پوسٹ کا حوالہ دے رہے تھے، جس میں مبینہ طور پر بھارتی وزیراعظم مودی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا دونوں ممالک کے درمیان بس اور ٹرین سروس بحال ہونی چاہیے، انہوں نے کہا کہ کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان ایک ہی ملک ہیں اور "میرے والد کے پاسپورٹ پر ان کی جائے پیدائش امرتسر، انڈیا لکھا ہوا تھا۔"
مشترکہ رسم و رواج، روایات، کھانے، زبان کا ذکر کرتے ہوئے، انہوں نے کہا، "کیا فرق ہے؟ میں تعلقات میں طویل وقفے سے خوش نہیں ہوں، عوام سے عوام کا رشتہ بہت اچھا ہے… سیاسی سطح پر ذہنیت کو بدلنا ہو گا۔"
بھارت جانے کی خواہش ہے، مریم نواز
نواز شریف نے کہا،"ہمارے تعلقات کے بہت اچھے امکانات ہیں۔ میں بھارت کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت مثبت سوچتا ہوں۔" یہ پوچھے جانے پر کہ کیا پل بنانے والے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا، "یہی کردار ہے جو میں ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔"
مودی کے لاہور کے اچانک دورے کے متعلق انہوں نے کہا، "مودی کا دورہ ایک خوشگوار سرپرائز تھا۔ انہوں نے کابل سے فون کیا اور مجھے مبارکباد دینا چاہی۔ وہ میرے گھر آئے، میری والدہ، اہلیہ سے ملاقات کی۔ یہ کوئی چھوٹا سا اشارہ نہیں تھا، وہ ہمارے لیے خاص طور پر ہمارے ملکوں میں معنی رکھتے ہیں۔ ہمیں ان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔"
انہوں نے سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورہ لاہور کو بھی یاد کیا اور کہا، واجپائی کا دورہ لاہور آج بھی بہت پیار سے یاد کیا جاتا ہے،ان کی تقریر بہت اچھی تھی۔ میں کبھی کبھی اچھی پرانی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے دورے اور تقریر کی ویڈیوز یوٹیوب پر دیکھتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ مودی کو بھی پاکستان کا دورہ کرنا چاہئے اور وہ چاہیں گے کہ مودی باضابطہ طور پر دوبارہ دورہ کریں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا بھارت کو چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان ٹیم بھیجنی چاہیے، انھوں نے کہا، "آپ نے وہی بات کر دی جو میرے دل میں ہے۔"
والد کے پاس بیٹھی مریم نواز نے بھارت جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا "مجھے کرتارپور کے دورے کے دوران بھارتی زائرین سے بہت پیار ملا۔ میں بھارت خصوصاً پنجاب کا دورہ کرنا پسند کروں گی۔‘‘ اس پر نواز شریف نے کہا کہ صرف پنجاب ہی کیوں؟ ہماچل، ہریانہ اور دیگر ریاستوں میں بھی جائیں۔
ج ا ⁄ ص ز ( خبر رساں ادارے)