بھارت: پی ایف آئی پر دہشت گردی کے الزام کے تحت پابندی عائد
28 ستمبر 2022بھارتی حکومت نے مختلف مقامات پر چھاپوں اور سینکڑوں مسلم رہنماؤں کی گرفتاریوں کے بعد معروف مسلم تنظیم 'پاپولر فرنٹ آف انڈیا' (پی ایف آئی) اور اس سے وابستہ دیگر اداروں کو پانچ برس کے لیے غیر ممنوع قرار دے دیا ہے۔ اس سے قبل مودی حکومت نے اس تنظیم کے خلاف ملک گیر چھاپوں کی کارروائی کی تھی اور دہشت گردی کے الزام کے تحت پی ایف آئی کے رہنماؤں اور سینکڑوں دیگر کارکنوں کو گرفتار کر لیا تھا۔
بھارتی مسلم تنظیم پی ایف آئی کے خلاف پھر چھاپے، سینکڑوں گرفتار
حکومت کا موقف
مودی حکومت نے پی ایف آئی اور اس سے وابستہ اداروں پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے سخت ترین قانون (یو اے پی اے) کے تحت پابندی لگائی ہے۔ وزارت داخلہ نے اپنے ایک حکم نامے میں کہا، ''بیرونی فنڈز اور نظریاتی حمایت کے ساتھ، یہ تنظیم ملک کی اندرونی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گئی ہے۔''
بیان میں یہ بھی دعوی کیا گیا کہ پی ایف آئی کے عراق اور شام کے شدت پسند گروپ داعش جیسے عالمی دہشت گرد گرہوں کے ساتھ روابط ہیں۔ نوٹیفکیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پی ایف آئی اور اس کے ساتھی یا ملحقہ ادارے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔
آسام میں مساجد، مدارس سے متعلق بی جے پی حکومت کی نئی پالیسی
اس کے مطابق یہ تنظیم، ''ملک کی سالمیت، خود مختاری اور سلامتی کے لیے نقصان دہ ہے اور یہ کہ اس کے لوگ ملک میں عوامی امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔''
بھارتی حکومت نے دعوی کیا ہے کہ پی ایف آئی شدت پسندانہ سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے اور اس کے روابط دہشت گرد تنظیم 'جماعت المجاہدین بنگلہ دیش'' سے بھی پائے گئے ہیں۔
وزارت داخلہ کی نوٹس کے مطابق پی ایف آئی سے وابستہ ''ری ہیب انڈیا فاؤنڈیشن، (آر آئی ایف) کیمپس فرنٹ آف انڈیا (سی ایف آئی) نیشنل کنفیڈریشن آف ہیومن رائٹس آرگنائزیشن، آل انڈیا امام کونسل، نیشنل ویمنز فرنٹ، جونیئر فرنٹ اور ایمپاور انڈیا فاؤنڈیشن نامی اداروں پر فوری طور سے پابندی عائدکردی گئی ہے۔
اس سے پہلے ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکمرانی والی اتر پردیش، کرناٹک، اور گجرات کی ریاستی حکومتوں نے پی ایف آئی پر پابندی لگانے کی سفارش کی تھی۔ وزارت داخلہ کا دعوی ہے کہ اگر پی ایف آئی اور اس سے ملحقہ اداروں پر فوری روک نہیں لگائی جاتی ہے، تو یہ ''ملک مخالف جذبات کی تشہیر کرنے کے ساتھ ہی معاشرے کے ایک خاص طبقے (مسلمانوں) کو بنیاد پرست بنا سکتی ہے۔''
پابندی پر رد عمل
ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے بیشتر رہنما اور اس جماعت کے وزرا اعلی مودی حکومت کے اس اقدام کی تعریف کر رہے ہیں۔ تاہم کیرالہ سے تعلق رکھنے والے کانگریس پارٹی کے ایک رکن پارلیمان کا کہنا ہے کہ پی ایف آئی کے ساتھ ہی سخت گیر ہندو تنظیم آر ایس ایس پر بھی پابندی لگنی چاہیے۔
بھارتی مسلمانوں کو احتجاج ختم کرنے کی تاکید
اس اقدام پر سوال اٹھاتے ہوئے رکن پارلیمنٹ کوڈیکنل سریش نے کہا کہ پی ایف آئی پر پابندی کوئی علاج نہیں ہے۔ ''آر ایس ایس بھی پورے ملک میں ہندو فرقہ پرستی کو پھیلا رہی ہے۔ آر ایس ایس اور پی ایف آئی دونوں برابر ہیں، اس لیے حکومت کو دونوں پر پابندی لگانی چاہیے۔ صرف پی ایف آئی ہی کیوں؟''
مسلم تنظیموں اور جماعتوں نے بھی پی ایف آئی کے خلاف کارروائی کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور اس کو جمہوری اقدار کے خلاف قرار دیا۔
مسلم رہنماوں کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ یک طرفہ قدم یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ اصل موضوعات اور مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔ ان رہنماوں کا کہنا ہے کہ ملک میں مسلمانوں کے خلاف ایک باقاعدہ ماحول تیار کیا جا رہا ہے جب کہ شدت پسندوں اور اشتعال انگیزی کرنے والے ہندو رہنماؤں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔
مسلم رہنماوں نے تاہم امید ظاہر کی ہے کہ پی ایف آئی کو عدالت سے انصاف ضرور ملے گا۔
پابندی سے قبل گرفتاریاں
بھارت کی قومی تفتیشی ایجنسی(این آئی اے) نے مختلف ریاستوں کی ایجنسیوں کے حکام کے ساتھ مل کر منگل کو علی الصبح ملک کی آٹھ ریاستوں، مدھیہ پردیش، کرناٹک، آسام، دہلی، مہاراشٹر، تلنگانہ، گجرات اور اتر پردیش میں مسلم تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے دفاتر اور اس کے رہنماؤں اور کارکنوں کی رہائش گاہوں پر چھاپے مارے تھے۔
اب تک پی ایف آئی کے تقریبا تین سو رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس سے پہلے 22 ستمبر کو بھی ملک کی 15 ریاستوں میں چھاپے کی کارروائی کی گئی تھی اور اس وقت بھی تقریبا سو افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
تاہم پی ایف آئی نے مودی حکومت کے تمام الزامات کو سختی سے مسترد کردیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ بھارت میں دلتوں، مسلمانوں اور قبائلیوں سمیت سبھی پسماندہ اور محروم طبقات کو با اختیار بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔