بھارت: پہلی مرتبہ حکومت میں کوئی بھی مسلم وزیر نہیں
7 جولائی 2022اقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا کے رکن تھے۔ ان کی رکنیت کی مدت جمعرات 7 جولائی کو ختم ہوگئی لیکن اس سے ایک روز قبل ہی انہوں نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔
سن1947میں آزادی ملنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب بھارت کی حکمراں جماعت کی طرف سے پارلیمان میں نہ تو مسلم نمائندگی رہ گئی اور نہ ہی مرکزی وزارت میں کوئی مسلم وزیر۔ حالانکہ نقوی کو مودی حکومت میں ایک ''مسلم چہرے‘‘ سے زیادہ اہمیت حاصل نہیں تھی۔
بھارتی پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اراکین کی تعداد تقریباً 400 اور مودی کابینہ میں وزیروں کی تعداد 80 کے قریب ہے۔ 64 سالہ نقوی اس میں واحد مسلم رکن تھے۔ انہوں نے ایک ہندو خاتون سے شادی کر رکھی ہے۔
بی جے پی پر مسلم مخالف رویے کا الزام
نقوی کی پارلیمان سے رخصتی ایسے وقت میں ہوئی ہے جب سن 2014 ء میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی پر مسلمانوں کے خلاف اقدامات کرنے اور ان کا دائرہ تنگ کرنے کی کوشش کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔
ایسے وقت میں جب کہ بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما کی طرف سے پیغمبر اسلام کی اہانت کے سبب ملک اور بیرون ملک بھارت کے سیکولر امیج کو شدید نقصان پہنچا ہے، بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا میں یہ خبریں گرم ہیں کہ مختار عباس نقوی کو بھارت کا نائب صدر بنایا جاسکتا ہے۔ بھارت کے موجودہ نائب صدر ایم وینکیا نائیڈو کی معیاد 10اگست کو ختم ہورہی ہے۔
بی جے پی نے اس سے قبل گزشتہ ماہ دروپدی مرمو کو صدارت کے عہدے کے لیے اپنا امیدوار نامز د کیا تھا۔ اگر مرمو جیت جاتی ہیں، جس کا غالب امکان پایا جاتا ہے تو وہ بھارت میں آئینی طور پر اس اعلٰی ترین عہدے پر پہنچنے والی پہلی قبائلی اور دوسری خاتون ہوں گی۔
گوکہ بھارت کا صدر بھارتی مسلح افواج کا سپریم کمانڈر بھی ہوتا ہے تاہم صدر اور نائب صدر کے عہدے بڑی حد تک صرف علامتی ہوتے ہیں۔ ملک کے اصل انتظامی اختیارات وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے پاس ہوتے ہیں۔ اس لیے یہاں صدر کو بالعموم ''ربراسٹامپ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
آزادی کے بعد سے ہی بھارتی مسلمانوں کی حالت ابتر
سن 1947میں تقسیم ہند کے بعد سے ہی بھارت میں سیاسی، سماجی، اقتصادی اور دیگر شعبوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کم سے کم تر ہوتی گئی۔ مسلمانوں کی خراب سماجی اور اقتصادی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ نے سن 2005 میں ''سچر کمیٹی‘‘ قائم کی تھی۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا، ''گزشتہ 60 برسوں کے دوران سرکاری اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی مسلسل گھٹتی چلی گئی۔ تقریباً تمام سیاسی شعبوں میں مسلمانوں کی شراکت برائے نام رہ گئی اور طویل مدت میں بھارتی سماج اور سیاست پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پارلیمان میں مسلمانوں کی نمائندگی کو ختم کردینا ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی اور اس کی مربی تنظیم آر ایس ایس کی دیرینہ حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سب سے بڑی اقلیت کو سیاسی نظام سے الگ تھلگ کرنا یہ بتاتا ہے کہ بھارت بھی یہودی یا اسلامی ریاست کی طرح ایک ہندو ریاست بننے والا ہے۔ سیکولرزم، تنوع اور شمولیت جیسے رہنما اصول سیاست سے غائب ہوتے جا رہے ہیں اور بی جے پی ملک کو اپنی گرفت میں پوری طرح لینے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔
’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘
وزیر اعظم نریندر مودی کا ایک مقبول نعرہ ''سب کا ساتھ، سب کا وکاس(ترقی)‘‘ ہے۔ جس کا وہ اکثر اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکمراں جماعت بی جے پی اور وزیر اعظم نریندرمودی کے اقدامات تاہم اس نعرے کی نفی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
خیال رہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 20 کروڑ سے زائد ہے، جو کہ انڈونیشیا اور پاکستان کے بعد دنیا میں مسلمانوں کی تیسری سب سے بڑی آبادی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بی جے پی حکومت میں مسلمانوں کی نمائندگی یوں بھی محض علامتی رہی ہے لیکن اب ایک بھی مسلم نمائندہ کا موجود نہ ہونا انتہائی تشویش کی بات ہے اور بھارتی سیاست میں اس کے دیرینہ مضمرات ہوسکتے ہیں۔
بی جے پی تاہم اس کی تردید کرتی ہے۔ بی جے پی کے اقلیتی شعبے کے سربراہ جمال صدیقی کا کہنا تھا کہ پارٹی اپنے امیدواروں کو منتخب کرنے میں مذہب کو مدنظر نہیں رکھتی۔ ''بی جے پی ضرورت کے مطابق امیدوار کا تعین کرتی ہے لہٰذا اسے مذہب کی عینک سے دیکھنا درست نہیں ہوگا۔‘‘