بھارت کا وزیر اعظم شہباز شریف کو بھی مدعو کرنے کا فیصلہ
26 جنوری 2023بھارتی ذرائع ابلاغ نے نئی دہلی میں حکام کے حوالے سے یہ خبر شہ سرخیوں میں شائع کی ہے کہ مودی حکومت آئندہ جون میں منعقد ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کو بھی دعوت نامہ بھیج رہی ہے۔
ممکنہ پاک بھارت جوہری جنگ امریکہ کی وجہ سے ٹلی، پومپیو
یہ خبر سب سے پہلے انگریزی اخبار دی ہندو نے شائع کی تھی، تاہم اب بھارت کے تقریباً سبھی بڑے میڈیا ادارے اسے نشر کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم مودی نے پاکستانی ہندوؤں کی بڑی خواہش پوری کردی
واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو بھارت کا دورہ کرنے کے لیے دعوت نامہ پہلے ہی بھیجا جا چکا ہے۔
اس سے بھی پہلے پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے العربیہ ٹیلیویژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم مودی کو مذاکرات کی دعوت دی تھی۔
انہوں نے کہا تھا، ''میرا پیغام بھارتی قیادت اور وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور ہمارے ساتھ کشمیر جیسے سلگتے ہوئے تنازعے کے بارے میں سنجیدہ گفتگو کریں۔''
اطلاعات کے مطابق ایس سی او سربراہی اجلاس کے حوالے سے حال ہی میں ہونے والی ایک میٹنگ میں اس پر فیصلہ کیا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق حال ہی میں اس اجلاس کے حوالے سے ہونے والی ایک میٹنگ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے پاکستانی کوآرڈینیٹر نے بھی ورچوئل لنک کے ذریعے شرکت کی۔
واضح رہے کہ بھارت نے دو روز قبل ہی پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو مئی میں سیاحتی شہر گوا میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ پاکستانی دفترِ خارجہ کے سینیئر اہلکار اس دعوت نامے کے ملنے کی پہلے ہی تصدیق کر چکے ہیں۔ البتہ بلاول بھٹو زرداری کی شرکت کے حوالے سے ابھی تک کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے۔
کیا پاکستانی رہنما بھارت کا دورہ کریں گے؟
رواں سال شنگھائی تعاون تنظیم کی میزبانی بھارت کر رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت سن 2017 سے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے مستقل رکن ہیں۔ مبصرین کے مطابق شنگھائی تعاون تنظیم میں رکن ممالک کو شرکت کی دعوت دینا میزبان ملک کے فرائض میں شامل ہوتا ہے اس لیے اسلام آباد کو اس میں شرکت کی دعوت دینا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔
اگر پاکستان کے وزیر اعظم یا وزیر خارجہ اس اجلاس میں ذاتی طور پر شرکت کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو سن 2011 کے بعد اسلام آباد سے بھارت کا اس طرح کا یہ پہلا دورہ ہو گا۔ آخری بار سن 2011 میں پاکستان کی سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بھارت کا دورہ کیا تھا۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ بھارت چونکہ شنگھائی تعاون تنظیم کا میزبان ہے، اس لیے نئی دہلی کی جانب سے اس طرح کا دعوت نامہ ایک ''معمول کی مشق'' ہے۔ اسلام آباد کو بھارتی دعوت کا جواب دینے کی کوئی جلدی نہیں ہے اور حکام کے مطابق ''مناسب وقت'' پر فیصلہ کیا جائے گا۔
تاہم پاکستانی میڈیا میں وزیر خارجہ کے قریبی ذرائع سے ایسی خبریں شائع کی ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری بھارت کا سفر کرنے کا موقع ضائع کرنا نہیں چاہیں گے کیونکہ اس سے وہ پہلی بار پڑوسی ملک کا براہ راست تجربہ کر سکیں گے۔
تاہم اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ آئندہ مئی اور جون تک بہت ممکن ہے کہ پاکستان میں حکومت بدل چکی ہو، یا پھر عام انتخابات کی ہلچل ہو۔ ایسی صورتحال میں کسی بھی پاکستانی رہنما کے لیے بھارت کے دورے پر فیصلہ کرنا آسان کام نہیں ہو گا۔ اور اگر حکومت تبدیل ہو گئی تو نئی حکومت مسئلہ کشمیر کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد پر کوئی اہم فیصلہ کرے گی۔
کشیدہ تعلقات
پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ کئی برس سے تعلقات شدید تناؤ کا شکار ہیں۔ اس کی ابتدا کشمیر کے پلوامہ میں بھارتی فوج پر عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد ہوئی۔ اس کے بعد بھارت نے بعض پاکستانی علاقوں کو فضائی حملوں سے نشانہ بنانے کی کوشش کی۔
پاکستان نے بھی اس پر جوابی کارروائی کی اور بھارت کے ایک جنگی طیارے کو مار گراتے ہوئے اس کے ایک پائلٹ کو پکڑ لیا۔ اس واقعے کے بعد اگست 2019 میں بھارت نے کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی، جس سے دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی میں زبردست اضافہ ہو گیا۔
اب حالت یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کئی برس سے پوری طرح سے سفارت خانہ بھی کام نہیں کر رہا ہے اور ایک دوسرے کے ملک میں ناظم الامور سفارت خانے کی ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں۔