بھارت، کشمیری طلبہ اور دو برس کا نقصان
18 مارچ 2021بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی صوفیہ بشیر نے اپنے چار سالہ بیٹے کو اکتوبر 2019ء کے دوران سکول داخل کروایا تھا۔ تب سے اب تک وہ صرف ایک ہفتہ ہی سکول جا سکا ہے اور وہ بھی مارچ 2020ء میں۔ اس کے بعد سے بھارتی حکومت نے کشمیر میں کورونا لاک ڈاؤن نافذ کر رکھا ہے۔
یہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں دوسرا طویل ترین لاک ڈاؤن ہے۔ قبل ازیں کشمیر میں اس وقت سخت لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا تھا، جب قوم پرست نریندر مودی کی حکومت نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی۔ ان مسلسل پابندیوں نے کشمیر کے 10 لاکھ سے زائد اسکول کے بچوں کو متاثر کیا ہے۔
سری نگر کے مضافات میں رہنے والی صوفیہ بشیر کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''میرا بیٹا جو صرف ایک ہفتہ ہی سکول جا سکا، وہ زندگی میں پہلی بار اس نئے تجربے سے گزر رہا تھا۔ لیکن پھر اچانک یہ سب کچھ بند ہو گیا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''یہ کچھ نیا نہیں سیکھ سکا، دوست نہیں بنا سکا۔ اسے ابھی تک اسکول کی زندگی کا پتا ہی نہیں چل سکا۔‘‘
کورونا پابندیاں اور اسکول
کشمیر میں پندرہ مارچ سے اسکول دوبارہ کھول دیے گئے ہیں لیکن کووڈ انیس کے پھیلاو کو روکنے کے لیے سخت حفاظتی اقدامات بھی متعارف کروائے گئے ہیں۔ نئی ہدایات کے مطابق طلبہ کو ہر روز تھرمل سکریننگ سے گزرنا ہو گا جبکہ جسمانی فاصلہ برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ ہاتھوں کو سینیٹائز بھی کرنا ہو گا۔ طلبہ کے والدین کو تحریری اجازت نامہ بھی دینا ہو گا۔ اس حوالے سے لیکن صوفیہ بشیر کہتی ہیں کہ اتنے چھوٹے بچوں کو نہیں پتا کہ انہیں ان قوانین پر عملدرآمد کرنا ہے۔
’کشمیر جمہوریت کا امتحان، بھارت اس میں ناکام‘
صوفیہ بشیر کا بیٹا ابھی تک آن لائن کلاسز ہی لے رہا ہے لیکن اس حوالے سے بھی کئی مسائل ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''کوئی بھی متبادل نہ ہونے سے آن لائن کلاسز پھر بھی کچھ مدد کر رہی ہیں لیکن میرا بیٹا ابھی تک اپنے ٹیچروں کو ہی نہیں پہچان پایا۔ علاوہ ازیں انٹرنیٹ کی سپیڈ کا مسئلہ ہے، گزشتہ ماہ انٹرنیٹ منقطع رہا۔ مسلسل انٹرنیٹ میں رکاوٹوں سے طلبا کے حوصلے پست ہوئے ہیں۔‘‘
طلبا کو نفسیاتی مسائل کا سامنا
والدین اور اساتذہ کے مطابق سکول سے دور رہنے کی وجہ سے کچھ طلبا کو نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے۔ پلوامہ کے سینٹرل ہائیر سکینڈری سکول میں طالب علموں کی تعداد تقریبا 300 ہے۔ طویل عرصے کے بعد جب چند روز قبل طالب علم دوبارہ اسکول گئے تو ان کا پھولوں سے استقبال کیا گیا۔ اسی اسکول کے 38 سالہ استاد مدثر بشیر کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کچھ طالب علم صرف 15 فیصد سلیبس ہی پڑھ پائے ہیں کیوں کہ کچھ کے پاس انٹرنیٹ نہیں تھا اور کچھ کے پاس کوئی موبائل خریدنے کی سکت ہی نہیں تھی۔
ان کا کہنا تھا، ''آن لائن ایجوکیشن ایک ایسی سہولت ہے، جس سے غریب طالب علم فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اس طرح اسٹوڈنٹ کمیونٹی کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ اس کے طلبہ پر جذباتی اور نفسیاتی اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں، ''کچھ کا رویہ جارحانہ ہوا ہے اور کچھ کو شخصیت کے مسائل کا سامنا ہے۔ یہ تعلیم سے بھی آگے کے نقصانات ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ جس قدر ممکن ہے دباؤ ڈالے بغیر طالب علموں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مدثر بشیر کے مطابق کچھ طالب علم تو ایسے ہیں، جنہوں نے اسکول آنا ہی بند کر دیا ہے اور وہ ان طالب علموں کو بھی سکول واپس لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
احمد رفعت فرید، سری نگر (ا ا / اب ا)