بھارت: کورونا متاثرین کی تعداد 70 لاکھ سے تجاوز
12 اکتوبر 2020بھارت میں گزشتہ صرف 13دنوں میں کورونا وائرس کے دس لاکھ سے زائد نئے کیسز سامنے آچکے ہیں جس کے ساتھ ہی کووڈ۔19سے 70 لاکھ سے زائد متاثرین کی تعداد کے ساتھ بھارت، دنیا میں امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ جبکہ آنے والے دنوں میں تہواروں کے بعد متاثرین کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
بھارتی وزارت صحت کی طرف سے جاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے 24 گھنٹوں میں 66732 نئے کیسز کے ساتھ کورونا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر71 لاکھ 22 ہزار 862 ہوگئی ہے جبکہ اسی دوران 816 مزید ہلاکتوں کے ساتھ کووڈ19سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ 9 ہزار 209 ہوگئی ہے۔ حکومت کا تاہم کہنا ہے کہ بھارت میں صحت یاب ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 86.36 فیصد ہوگئی ہے جبکہ ہلاکتوں کی شرح صرف 1.53 فیصد ہے۔
بھارت میں ڈاکٹروں کی سب سے بڑی تنظیم انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر رنجن مشرا نے ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ بھارت میں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی شرح بہت کم ہے۔ بھارت میں کورونا وائرس کے کیسز میں مسلسل اضافہ کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر رنجن مشرا کا کہنا تھا ''نئے کیسز کی تعداد میں اضافہ اس لیے دکھائی دے رہا ہے کیوں کہ بھارت میں ٹیسٹنگ میں بھی اضافہ ہوا ہے اور یہ بہر حال ایک مثبت پہلو ہے کہ لوگوں میں بیداری بڑھ رہی ہے۔"
کم ہلاکتوں کا سبب
ایک ارب 30 کروڑ سے زیادہ آبادی والے بھارت میں کورونا سے متاثر ہونے والے دنیا کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں ہلاکتوں کی تعداد کافی کم رہی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی ایک وجہ بھارت میں نوجوانوں کی بڑی آبادی ہے۔ لیکن اس کی دوسری وجہ ہلاک ہونے والو ں کی کم رپورٹنگ ہے۔
ڈاکٹر ہیمنت شویدے کا کہنا تھا کہ اموات کا ریکارڈ رکھنے کا بھارت کا نظام کافی کمزور ہے، جس کی وجہ سے کئی اموات ریکارڈ ہونے سے رہ جاتی ہیں۔ ڈاکٹر ہیمنت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کورونا سے ہونے والی ہلاکتوں کی ایک بڑی تعداد ریکارڈ نہیں ہوسکی۔
اس کی واضح مثال قومی دارالحکومت دہلی ہے، جہاں گزشتہ جولائی میں دہلی میونسپل کارپوریشن نے کورونا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 4155 بتائی تھی جب کہ دہلی حکومت نے اپنی رپورٹ میں صرف 3571 ہلاکتوں کا ذکر کیا تھا۔ اس معاملے پر کافی ہنگامہ بھی ہوا تھا۔
وزیر صحت کی تنبیہ
بھارتی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے لوگوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'چونکہ تہواروں کا سیزن شروع ہوچکا ہے اس لیے ان تہواروں کے دوران ذرا سی بھی بے احتیاطی سے صورت حال ابترہوسکتی ہے۔‘
بھارتی وزیر صحت نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ 'اپنے مذہبی عقیدت کو ثابت کرنے کے لیے بڑ ی تعداد میں کسی جگہ جمع ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو یقیناً ایک بڑی مصیبت کو دعوت دیں گے۔"
خیال رہے کہ آئندہ 25 اکتوبر کو ہندووں کا بہت بڑا تہوار دسہرہ اور اس کے بعد دیوالی آنے والا ہے۔ پورے بھارت میں ہندو یہ تہوار بڑے جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں۔ اس سے قبل عید الفطر اورعیدالاضحی کے دوران عیدگاہوں میں نمازیں ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
بے احتیاطی
25مارچ کو شروع ہونے والے لاک ڈاون میں محدود چھوٹ دیے جانے کے باوجود تہواروں کی وجہ سے لوگوں کی کافی بھیڑ بازارو ں میں دکھائی دے رہی ہے۔ گوکہ بیشتر افراد ماسک کا استعمال کررہے ہیں تاہم سوشل ڈسٹینسنگ کا برائے نام بھی خیال نہیں رکھا جارہا ہے۔
بھارت میں منصوبہ بندی کے ادارے نیتی آیوگ کے رکن وی کے پال کی صدارت والی ماہرین کی کمیٹی نے اس صورت حال پر تشویس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر آنے والے تہواروں کے دوران احتیاط نہیں برتی گئی تو صرف دہلی میں ہی روزانہ 15ہزار نئے کیسز سامنے آسکتے ہیں۔
دہلی میں اس وقت روزانہ تقریباً 2700 نئے کیسز سامنے آرہے ہیں۔ ماہرین نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ جنوبی ریاست کیرالا اور مغربی ریاست مہاراشٹر میں اونم اور گنیش چترتھی کے تہواروں کے بعد کورونا وائرس کی وبا میں تیزی سے اضافہ ہوا تھا۔
اسکول بند، 400 ارب ڈالر کا خسارہ
ورلڈ بینک نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ کورونا وائرس کے مد نظر بھارت میں اسکولوں کے طویل مدت تک بند رہنے کی وجہ سے ملک کو 400 ارب ڈالر کا نقصان ہوسکتا ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق اسکولوں کے بند ہونے کے سبب جنوبی ایشیا خطے کو کم از کم 622 ارب ڈالرکا خسارہ ہوگا جو 880 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ اس سے ان ملکوں کی جی ڈی پی میں زبردست گراوٹ آئے گی تاہم اس میں سب سے زیادہ نقصان بھارت کا ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق اسکولوں کے بند ہوجانے کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کے 391 ملین طلبہ اسکول جانے سے محروم ہوگئے ہیں۔ کورونا کی وجہ سے 5.5 ملین طلبہ کے تعلیم ترک کردینے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس سے مستقبل میں تمام جنوبی ایشیائی ملکوں کی پیداواریت پر زبردست منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
جاوید اختر، نئی دہلی