بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سخت کریک ڈاؤن اور گرفتاریاں
24 فروری 2019گشت کرنے والے پولیس اور پیرا ملٹری دستے خود کار رائفلوں سے لیس ہیں۔ اس کے علاوہ انسداد احتجاج کے لیے خصوصی حفاظتی بندوبست (گیئرز) کے ساتھ بھی سکیورٹی اہلکار گشت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سری نگر شہر کی سبھی سڑکوں پر مظاہرین کے راستے بند کرنے کے لیے خار دار باڑ نصب کی جا چکی ہے۔
یہ حفاظتی انتظامات خاص طور پر بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے مرکزی شہر میں کیے گئے ہیں۔ سرینگر سے باہر جانے والی سڑکوں کو بھی عارضی رکاوٹوں سے پوری طرح بند کر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نئی دہلی حکومت نے مزید دس ہزار پیرا ملٹری فوجی دستوں کو بھی کشمیر روانہ کر دیا ہے۔
سرینگر شہر میں بظاہر کریک ڈاؤن کا سلسلہ جمعہ بائیس فروری سے شروع ہے لیکن اس میں حکومتی انتظامی و سکیورٹی کے ادارے بتدریج سختی لاتے چلے گئے ہیں اور اتوار چوبیس فروری کو پورے شہر کو مقفل کیا جا چکا ہے۔ اس کریک ڈاؤن کے دوران سکیورٹی اہلکاروں نے جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ دیگر علیحدگی پسند مذہبی و سیاسی گروپوں کو ٹارگٹ کیا ہے۔
سرینگر میں بھارتی حکام بائیس فروری کے بعد سے اب تک چار سو سے زائد کشمیری رہنماؤں اور سرگرم کارکنوں کو حراست میں لے چکے ہیں۔ ان گرفتار شدگان کو سری نگر کے علاوہ دوسرے مقامات پر واقع جیلوں میں منتقل کیا جا چکا ہے۔ دوسری جانب کریک ڈاؤن سے شہر کے عام شہریوں میں خوف و ہراس کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے کہ پرتشدد احتجاج کا نیا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔
گرفتار ہونے والے سینکڑوں افراد میں جماعت اسلامی سرینگر کے مرکزی رہنما عبد الحمید فیاض اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے لیڈر یاسین ملک خاص طور پر نمایاں ہیں۔ یاسین ملک کشمیر میں آزادی پسندی کی تحریک کے حامی ہیں۔ اُن کا گروپ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ بھی اسی پالیسی کی حمایت و تائید کرتا ہے۔
اتوار چوبیس فروری کی ہڑتال کا اعلان مرکزی مزاحمتی قیادت کی جانب سے کیا گیا ہے۔ اس مرکزی قیادت میں تین اہم رہنام شامل ہیں اور ان میں سے ایک یاسین ملک بھی ہیں۔ اس وقت کشمیر کے دونوں حصوں یعنی لائن آف کنٹرول کے آرپار کی آبادیوں میں پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان کسی جنگی صورت حال پیدا ہونے کا خوف بھی پایا جاتا ہے۔
ع ح / ش ح (روئٹرز، اے ایف پی)