بھارت کے نئے آرمی چیف کی پاکستان کو دھمکی
1 جنوری 2020جنرل نروانے کے مطابق بھارت کا ہمسایہ دہشت گردی کو ریاستی پالیسی کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور اگر اس نے یہ سلسلہ بند نہیں کیا تو بھارت اس کے خلاف پیشگی حملے کا اپنا حق محفوظ رکھتا ہے۔
بھارت کے 28ویں آرمی چیف کے طورپر 31 دسمبر کو عہدہ سنبھالنے کے بعد میڈیا کو دیے گئے اپنے پہلے انٹرویو میں جنرل نروانے نے کہا، ''دہشت گردی پوری دنیا کے لیے مسئلہ ہے۔ بھارت دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کے حق میں ہے۔ اب دہشت گردی سے متعدد ممالک متاثر ہو رہے ہیں، ایسے میں پوری دنیا دہشت گردی کے خطرات کو سمجھنے لگی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت نے دہشت گردی کے خلاف سخت جوابی کارروائی کی پالیسی بنائی ہے۔
’پاکستان بے وقوف نہیں بناسکتا‘
بھارتی آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا کو دکھانے کے لیے دہشت گردی کے خلاف باتیں تو ضرور کرتا ہے لیکن وہ اسے اپنی ریاستی پالیسی کے طور پر استعمال کر رہا ہے: ''لیکن یہ صورت حال زیادہ دنوں تک برقرار نہیں رہے گی۔ آپ دنیا کو بار بار بے وقوف نہیں بناسکتے ہیں۔ اب دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کا دوہرا رویہ نہیں چلے گا۔"
جنرل نروانے نے کہا کہ پاکستان کی اشتعال انگیزی یا اس کی مدد سے کی جانے والی دہشت گردانہ حرکتوں کا جواب دینے کے لیے بھارت کے پاس کئی متبادل موجود ہیں: ”ہمارے پاس ایسی صورت میں دہشت گردی کے امکانی خطرے والے ٹھکانوں پر حملہ کرنے کا حق ہے اور سرجیکل اسٹرائیک، جیسے بالاکوٹ کی مہم کے ذریعے ہمارے اس نقطہ نظر کی خاطر خواہ جھلک مل چکی ہے۔"
جنرل نروانے نے پاکستان پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا، ”جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ کنٹرول لائن کی دوسری طرف کئی ٹھکانوں پر دہشت گرد موجود ہیں جو بھارتی علاقے میں دراندازی کے منتظر ہیں۔ ہم اس خطرے سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ دہشت گردوں کے خاتمے اور دہشت گردی کے نیٹ ورک کی تباہی کی وجہ سے پاکستانی فوج کے پراکسی وار کے منصوبے کو دھچکا لگا ہے لیکن دہشت گردی کے خلاف ہماری زیرو ٹالیرنس کی پالیسی جاری رہے گی۔" انہوں نے مزید کہا کہ سرکاری اعانت یافتہ دہشت گردی کی طرف سے ہماری توجہ ہٹانے کی پاکستانی فوج کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔
’کشمیر کی حالت بہتر ہوئی ہے‘
بھارت کے نئے آرمی چیف جنرل نروانے کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی آئینی دفعہ 370 کو ختم کرنے کے بعد سے ریاست میں سدھار ہوا ہے: ”اس میں شک نہیں کہ پرتشدد واقعات میں کمی آئی ہے اور حالات میں سدھار ہوا ہے۔ مسائل ختم نہیں ہوئے ہیں۔ وہ ابھی باقی ہیں لیکن ہم اس سے نمٹنے کے لیے مسلسل سدھارکر رہے ہیں اور آنے والے چیلنجز کا بھی مقابلہ کریں گے۔"
جنرل نروانے نے مزید کہا، ”دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد پاکستان نے عالمی برادری کی توجہ کشمیر کی طرف مبذول کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ اس میں ناکام رہا۔" انہوں نے کہا کہ کنٹرول لائن پر جنگ بندی کی خلاف ورزی دراصل مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنے کی پاکستان کی کوشش کا حصہ ہے۔
’اب توجہ شمالی سرحد کی طرف‘
جنرل مکند نروانے کے مطابق بھارت کے لیے تمام سرحدی علاقے اہم ہیں تاہم اب بھارتی فوج مغربی سرحد (پاکستان) سے شمالی سرحد کی طرف اپنی توجہ مرکوز کر رہی ہے: ”یہ ترجیحات میں توازن کا عمل ہے۔ ہم شمالی سرحد پر اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے کام جاری رکھیں گے تاکہ ضرورت پڑے تو ہم پوری طرح سے تیار ہوں۔ میری پوری توجہ آرمی کو کسی بھی وقت کسی بھی خطرے کے لیے پوری طرح تیار رکھنا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے ہماری توجہ مغربی سرحد پر رہی ہے جب کہ شمالی سرحد پر ذرا کم توجہ دی گئی۔ ہمیں توازن بنانے کی ضرورت ہے۔"
چین کے ساتھ تعلقات
چین کے ساتھ بھارت کی 3500 کلومیٹر طویل سرحد پر صورت حال کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں جنرل نروانے نے کہا، ”ووہان سمٹ کے دوران دونوں ملکوں نے اپنی افواج کو اسٹریٹیجک گائیڈلائنز دی تھیں۔ اس کا مقصد سرحد پر امن قائم کرنا تھا۔ اس کے ذریعے ہم مسائل کو مقامی سطح پر حل کرنے اور ان کو تنازعہ بننے سے روکنا چاہتے ہیں۔ بعض امور پر اختلافات اور حساس مقامات پر ٹکراؤ کے باوجود دونوں افواج کے تعلقات دوستانہ ہیں۔"
خیال رہے کہ جنرل نروانے، جنرل بپن راوت کے بعد آرمی چیف بنائے گئے ہیں جب کہ جنرل راوت بھارت کے پہلے چیف آف ڈیفنس اسٹاف کے طور پر آج یکم جنوری کو اپنا عہدہ سنبھال رہے ہیں۔