بھارت: ’ہم دیکھیں گے کہ پاکستان افغانستان میں کیا کرتا ہے‘
4 ستمبر 2021بھارت کے خارجہ سیکرٹری ہرش وردھن شرینگلا کا کہنا ہے کہ افغانستان میں صورت حال ابھی مستحکم نہیں، اس لیے بھارت بھی امریکا کی طرح ’انتظار کرنے اور دیکھنے‘ کی پالسی پر عمل پیرا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس پالسی پر عمل پیرا ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ بھارت اپنی سطح پر کچھ نہیں کر رہا۔
بھارت کے طالبان سے رابطے
بھارتی خارجہ سیکرٹری نے واشنگٹن کا تین روز دورہ کرنے کے بعد نئی دہلی واپسی پر یہ بات جمعہ تین ستمبر کی رات ملکی میڈیا کے ساتھ گفتبگو میں کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ بھارت کے بڑے محدود پیمانے پر رابطے ہیں اور طالبان کے ساتھ اب تک کی بات چیت سے لگتا ہے کہ وہ بھارتی خدشات اور تشویش کے جواب میں ’معقول رویہ‘ اپنائیں گے۔
حال ہی میں دوحہ میں بھارتی سفیر کی طالبان کی قیادت سے ملاقات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں شرینگلا نے کہا، ’’ایسا نہیں کہ ہماری طالبان کے ساتھ کوئی بہت مفصل گفت و شنید ہوئی ہو۔ لیکن ان سے اب تک ہماری جو بھی بات چيت ہوئی ہے، اس سے لگتا ہے کہ طالبان یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ وہ حالات کا مقابلہ کرنے میں معقول راستہ اپنائیں گے۔‘‘
بھارتی خارجہ سیکرٹری کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب امریکا اور بھارت کی نظر اس بات پر بھی ہے کہ پاکستان افغانستان میں کیا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’واضح ہے کہ ہماری طرح وہ بھی بڑی توجہ سے دیکھ رہے ہیں ۔۔۔۔۔ اور ہمیں بھی بڑی باریک بینی سے پاکستان کے اقدامات دیکھنا ہی ہوں گے۔‘‘
شرینگلا کا مزید کہنا تھا، ’’زمینی سطح پر ابھی حالات غیر واضح ہیں اور دیکھنا یہ ہے کہ صورت حال کیا رخ اختیار کرتی ہے، ’’آپ کو یہ دیکھنا ہو گا کہ جو یقین دہانیاں عوامی سطح پر کرائی گئی ہیں، وہ عملاﹰ اور اصلاﹰ برقرار رہتی ہیں یا نہیں اور چیزیں کیسے آگے بڑھتی ہیں۔‘‘
طالبان سے بھارتی توقعات
نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے سیکرٹری کا کہنا تھا کہ بھارت نے اپنے بیان میں یہ بات واضح کر دی ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے کسی بھی قسم کی دہشت گردی کو فروغ نہیں ملنا چاہیے، ’’ہم نے خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کی بھی بات کی ہے۔ اور میرے خیال سے انہوں نے بھی اس بارے میں یقین دہانیاں کرائی ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی شدت پسند تنظیموں کو اپنی سرگرمیوں کے لیے ماضی میں کھلی چھوٹ مل گئی تھی اور اسی بات پر بھارت کو اب بھی تشویش ہے، ’’ہمیں اس پر نظر رکھنا ہے، اس تناظر میں پاکستان کے کردار کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘
’امریکا اور بھارت کی پالیسی ایک ہے‘
ہرش وردھن شرینگلا کا کہنا تھا کہ افغانستان کے حوالے سے بھارت اور امریکا کی پالیسی ایک ہے۔ ان کے مطابق امریکا کا کہنا ہے کہ طالبان نے انہیں اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اس بھارتی سفارت کار کے مطابق امریکا بھی طالبان کو واضح طور پر یہ بتا چکا ہے کہ اگر افغانستان سے کسی قسم کی دہشت گردانہ کارروائیاں ہوتی ہیں، تو اس کے لیے طالبان ہی کو جواب دہ ٹھہرایا جائے گا۔
انہوں نے کہا، ’’ہم افغانستان کی صورت حال اور وہاں پاکستان کے کردار کے حوالے سے امریکا کے ساتھ گفت و شنید میں پوری طرح شامل ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ حالات کیا صورت اختیار کرتے ہیں۔‘‘
بھارتی حکام ماضی میں یہ کہتے رہے ہیں کہ طالبان کی قیادت کے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔اس لیے اس بات کا خدشہ ہے کہ پاکستان طالبان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر سکتا ہے۔
بھارت میں بیشتر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کی حکومت کے ساتھ تعلقات قائم نہ کرنے سے بھارت کو مستقبل میں کافی نقصان پہنچ سکتا ہے، اس لیے نئی دہلی کو دوطرفہ روابط قائم کرنے کے ایک نئے مرحلے کا آغاز کرنا چاہیے۔
کئی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت کے لیے مشکل یہ ہے کہ اس مرتبہ وہ طالبان کی حکومت سے کنارہ کش نہیں ہو سکتا، جیسا کہ اس نے نوے کی دہائی میں کیا تھا کیونکہ نئی افغان حکومت کو بھارت کے اتحادی ملک امریکا نے قانونی جواز فراہم کر رکھا ہے۔
دوسری طرف بھارت نے افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں بھارت کے حوالے سے طالبان رہنماؤں کے قدرے متضاد بیانات سے نئی دہلی فی الحال شش و پنج کا شکار ہے۔
ز ص / م م