بھارتی بنگلہ دیشی تعلقات پڑوسی ممالک کے لیے ماڈل، شیخ حسینہ
6 ستمبر 2022بھارت اور بنگلہ دیش نے منگل چھ ستمبر کے روز دریائے کوشیارا کے پانی کی تقسیم سمیت شعبہ ریلوے میں تربیت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سائنس، خلائی تحقیق اور میڈیا جیسے کئی شعبوں میں تعاون کے متعدد معاہدوں پر دستخط کر دیے۔
اس امر کا اعلان بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی بنگلہ دیشی ہم منصب شیخ حسینہ نے نئی دہلی میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ شیخ حسینہ گزشتہ روز چار روزہ دورہ بھارت پر نئی دہلی پہنچی تھیں اور منگل کے روز انہوں نے بھارتی رہنماؤں سے ملاقات کی۔
بنگلہ دیش: مودی کے خلاف مظاہرے اور ہلاکتوں پر ’یوم دعا‘
مودی نے کیا کہا؟
دونوں رہنماؤں نے باہمی بات چیت کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اس موقع پر کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت تیزی سے بڑھ رہی ہے، ’’ہم نے آئی ٹی، خلائی تحقیق اور جوہری شعبوں میں تعاون بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاور ٹرانسمشن لائنوں کے بارے میں بھی بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان بات چیت جاری ہے۔‘‘
مودی کا مزید کہنا تھا، ’’ہم نے سیلاب سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون میں اضافہ کیا ہے۔ ہم بنگلہ دیش کے ساتھ سیلاب سے متعلق ریئل ٹائم ڈیٹا کا اشتراک کرتے رہے ہیں اور دہشت گردی جیسے مسئلے پر بھی بات چیت کی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم مل کر ان طاقتوں کا مقابلہ کریں جو ہمارے خلاف ہیں۔‘‘
دونوں رہنماؤں نے پانی کی تقسیم سے متعلق بھی ایک معاہدے پر دستخط کرنے کا اعلان کیا۔ نریندر مودی نے کہا، ’’بھارت اور بنگلہ دیش کے سرحدی علاقوں میں 54 دریا بہتے ہیں اور دونوں ممالک کے لوگوں کی روزی روٹی سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ آج ہم نے دریائے کوشیارا کے پانی کی تقسیم کے حوالے سے ایک اہم معاہدے پر بھی دستخط کیے۔‘‘
شیخ حسینہ نے کیا کہا؟
بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے اس موقع پر بھارت کی آزادی کی 75ویں سالگرہ کی مناسبت سے اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور کہا کہ بھارت خود انحصاری کے اپنے اہداف کے حصول کے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔
وزیر اعظم شیخ حسینہ نے کہا، ’’ہماری بات چیت کے نتائج سے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ پہنچے گا۔ آج وزیر اعظم مودی اور میں نے نتیجہ خیز بات چیت کا ایک اور دور مکمل کیا۔ اس کا نتیجہ دونوں ممالک کے لوگوں کے لیے فائدہ مند ہو گا۔ ہم نے یہ ملاقات قریبی دوستی اور تعاون کے جذبے سے کی۔‘‘
شیخ حسینہ کا مزید کہنا تھا، ’’بھارت ہمارا دوست ہے۔ میں جب بھی بھارت آتی ہوں، یہ میرے لیے خوشی کی بات ہوتی ہے، خاص طور پر اس لیے کہ ہم ہمیشہ اپنی آزادی کی جنگ کے دوران کیے گئے بھارتی تعاون کو یاد کرتے ہیں۔ ہمارے دوستانہ تعلقات ہیں، ہم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا، ’’بھارت اور بنگلہ دیش کے مابین باہمی تعلقات پڑوسی ملکوں کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘
اس موقع پر شیخ حسینہ نے وزیر اعظم مودی کے لیے ان کی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے اس نعرے کو بھی دہرایا جو بھارت میں ان کے مداحوں کا نعرہ ہے۔ مودی کے مداحوں کا نعرہ ہے: ’مودی ہے، تو ممکن ہے‘۔ اسی طرز پر شیخ حسینہ نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا، ’’مودی ہیں، تو تمام مسائل کا حل بھی موجود ہے۔‘‘
بھارت کے بیانات نا قابل قبول ہیں، بنگلہ دیش
تاہم اس موقع پر شیخ حسینہ نے ایک بار پھر اپنی اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ کاش بھارت کے ساتھ دریائے تیستا کے پانی کی تقسیم کے حوالے سے کوئی حتمی معاہدہ ہو سکتا، جو دونوں ملکوں کے درمیان ایک دیرینہ تنازعہ رہا ہے۔
شیخ حسینہ نے اس خواہش کا اظہار تو کیا تاہم ان کے بھارتی ہم منصب نے جواباﹰ اس کا کوئی ذکر تک نہ کیا۔ دونوں ملکوں کی سرحد پر عام شہریوں کی ہلاکت بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، جو اکثر سرحدی فورسز کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ دونوں لیڈروں نے اس بارے میں بھی کچھ نہ کہا۔
پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش: رسمی پیغامات سے آگے تو بڑھیے
پانی کا تنازعہ
بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی پانی کے حوالے سے تقریباﹰ اسی نوعیت کا تنازعہ پایا جاتا ہے، جیسا بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک زمانے سے موجود ہے۔ بھارت نے سرحدی علاقوں میں توانائی کے لیے بڑے بڑے بند تعمیر کر لیے ہیں، جس کی وجہ سے وہ نصف پانی پڑوسی ملک کو دینے کے بجائے زیادہ تر خود ہی استعمال کرتا ہے۔
دریائے تیستا بھارتی ریاست مغربی بنگال کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ تاہم بھارت نے ریاست سکم میں کئی بڑے ڈیم تعمیر کیے ہیں جن کی وجہ سے بیشتر پانی اسی میں صرف ہو جاتا ہے۔ تاہم سب سے بڑا مسئلہ ریاست مغربی بنگال میں تعمیر کردہ ایک نیا اور بہت بڑا ڈیم ہے۔
بھارت اور بنگلہ دیش سرحد پر مسلسل انسانی ہلاکتیں، ذمہ دار کون؟
ماضی میں بھارت کی مرکزی حکومتیں اس حوالے سے بنگلہ دیش کے ساتھ ایک حتمی معاہدہ کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں تاہم ریاست مغربی بنگال کی حکومت اس کی مخالفت کرتی رہی ہے۔
بھارتی ریاست مغربی بنگال کی حکومت کا کہنا ہے کہ اگر دریائے تیستا کے پانی کی تقسیم کے حوالے سے بنگلہ دیش کے ساتھ کوئی معاہدہ ہوا، تو مغربی بنگال کے کئی اضلاع بری طرح متاثر ہوں گے اور اسی لیے وہ ایسے کسی ممکنہ معاہدے کی مخالفت کرتی ہے۔