بھارتی زیرانتظام کشمیر میں چھ مشتبہ علیحدگی پسند ہلاک
30 دسمبر 2021بھارتی پولیس کے مطابق پاکستان سے تعلق رکھنے والے عسکری گروہ جیش محمد سے وابستہ چھ عسکریت پسند دو دو دیہات میں جھڑپوں کے دوران ہلاک کیا گیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے دو پاکستانی شہری تھے۔ ایک بھارت عہدیدار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ان جھڑپوں میں ایک پولیس اہلکار اور دو فوجی زخمی بھی ہوئے۔
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں بجلی کی شدید قلت آخر کیوں؟
کشمیر: جموں کو چھ سیٹیں اور وادی کے لیے صرف ایک نشست
بھارتی حکام کے مطابق اگست 2019 سے اب تک کم از کم 380 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے جب کہ اس دوران 100 عام شہری اور 80 سکیورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔ واضح رہے کہ اگست 2019 میں نئی دہلی حکومت نے کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت ختم کر کے اسے یونین ٹیریٹری قرار دے دیا تھا۔ اس کے بعد اس علاقے میں پہلے سے جاری آزادی اور علیحدگی کی تحریک میں مزید غصہ پیدا ہوا تھا۔
ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق رواں برس کشمیر میں پرتشدد واقعات میں ہونے والی ہلاکتیں 264 رہیں جب کہ گزشتہ برس یہ تعداد 321 تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ باغیوں کے خلاف فوجی آپریشن میں شدت کے نتیجے میں کئی دہائیوں میں یہ پہلا موقع ہے جب کہ مقامی جنگجوؤں کی تعداد اتنی کم ہوئی ہے۔
ایک مقامی پولیس افسر وجے کمار نے روزنامہ اکنامک ٹائمز سے بات چیت میں کہا کہ رواں برس جنگجوؤں میں شامل ہونے والے 70 فیصد نوجوان یا تو گرفتار کر لیے گئے یا مارے گئے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان میں سے زیادہ تر گرفتاریاں متنازعہ بھارتی قانون یو اے پی اے (غیرقانونی سرگرمیوں کے انسداد کا قانون) کے تحت کی گئیں۔ اس قانون کے ذریعے کسی بھی مشتبہ شخص کو بغیر الزام عائد کیے چھ ماہ تک زیرحراست رکھا جا سکتا ہے، جب کہ اس دوران ضمانت کے امکانات قریب ناممکن ہوتے ہیں۔
یکم دسمبر کو اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق نے اس قانون پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قانون کے تحت کسی بھی ملزم کو اپنے دفاع اور عائد کردہ الزامات پر شفاف مقدمے کے عمل پر سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ تاہم بھارتی حکومت کا موقف ہے کہ عالمی ادارے کا بیان سکیورٹی چیلجنز کے زمینی حقائق سے عدم آگہی کا اظہار ہے۔
ع ت، ب ج (اے ایف پی)