بھارتی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے گرد گھیرا تنگ
10 نومبر 2017قبل ازیں ملائیشیا میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کو مستقل رہائش کی اجازت ملنے کی خبریں آئی تھیں۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمارنے معمول کی میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا، ’’وزارت خارجہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو بھارت کے حوالے کرنے کے لیے ملائشیا کی حکومت سے بہت جلد باضابطہ درخواست دینے والی ہے۔ اس سلسلے میں تمام قانونی ضابطے تقریباً مکمل ہوچکے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’اس طرح کے معاملات میں کسی غیر ملکی حکومت سے مدد کے لیے باضابطہ درخواست کرنا پڑتی ہے اور ہم اس طریقہ کار کی تکمیل کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ اس سے قبل مختلف وزارتوں کے درمیان ہمیں جو داخلی قانونی اقدامات کرنا ہوتے ہیں ہم اسے پورا کرنے کے آخری مرحلے میں ہیں۔‘‘
خیال رہے کہ ایسی خبریں آئی تھیں کہ ملائیشیا کی حکومت نے بھارتی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو اپنے یہاں مستقل رہائش کی اجازت دے دی ہے۔ انہوں نے پانچ سال قبل ہی مستقل رہائش کی یہ سہولت حاصل کرلی تھی۔ گزشتہ دنوں ملائیشیا کے نائب وزیر اعظم احمد زاہدحامدی نے ملکی پارلیمان کو بتایا تھا کہ ذاکر نائیک کی حوالگی کے سلسلے میں بھارت سے ابھی تک باضابطہ کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے۔ اور اگر بھارت اس طرح کی درخواست کرتا ہے تو ذاکر نائیک کو بھارت کے حوالے کردیا جائے گا۔ ان کا تاہم یہ بھی کہنا تھا کہ ذاکر نائیک نے ابھی تک ملائیشیائی قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی ہے جس کے بناپر ان کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے۔
واضح رہے کہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے ایک کیفے میں یکم جولائی 2016 کو ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد 52 سالہ بھارتی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائک کا نام سامنے آیا تھا۔ حملے میں ملوث دو انتہاپسندوں نے اپنے فیس بک پوسٹ میں بتایا تھا کہ وہ ذاکر نائک کی تقریروں سے متاثر ہیں۔ اس پیش رفت کے بعد وہ پہلے سعودی عرب اور پھر ملائشیا چلے گئے اور اب تک وہیں مقیم ہیں۔
بھارتی وزارت داخلہ نے 1991میں قائم اور ممبئی سے سرگرم ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تنظیم اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن (آئی آر ایف) کو پہلے ہی غیرقانونی قرار دے دیا ہے اور ذاکر نائک کا پاسپورٹ منسوخ کرکے ان کے خلاف غیر ضمانتی وارنٹ جاری کراچکی ہے۔ حکومت نے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت آئی آر ایف پر پانچ برس کے لیے پابندی عائد کردی ہے اور نائیک کو مفرور قرار دے رکھا ہے۔
بھارت کی قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) نے بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک اورآئی آر ایف پرغیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہنے اور مذہبی منافرت پھیلانے کے الزامات عائد کیے ہیں اور اس سلسلے میں ان کے خلاف این آئی اے اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے مقدمات درج کر رکھے ہیں۔ این آئی اے نے نومبر 2016 میں ذاکر نائیک کے خلاف انسداد دہشت گردی قانون کے تحت بھی کیس درج کیا تھا اور اس حوالے سے ممبئی کی ایک خصوصی عدالت میں گزشتہ ماہ چارج شیٹ بھی داخل کردیا ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک اسلام کے حوالے سے اپنی منطقی تقریروں کے لیے دنیا بھر میں معروف ہیں۔ قوم پرستی، ہم جنس پرستی، اسامہ بن لادن اور دہشت گردی جیسے موضوعات پر ایک طبقہ ان کے خیالات کو پسند نہیں کرتا۔ بعض افراد ان پر مسلکی منافرت پھیلانے کا بھی الزام عائد کرتے ہیں۔ مبینہ انتہا پسندانہ خیالات کی وجہ سے برطانیہ اور کینیڈا میں ذاکر نائیک کی تقریروں پر پابندی عائد ہے تاہم دنیا کے 125 ملکوں میں سیٹلائٹ کے ذریعے ان کے پِیس (امن) ٹی وی کی نشریات دیکھی جاتی ہیں۔ بھارت کی متعدد شدت پسند ہندو تنظیمیں ایک عرصے سے حکومت سے پیس ٹی وی پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
جنوبی افریقہ کے معروف مناظر احمد دیدات کے شاگرد اور پیشے کے حوالے سے کوالیفائیڈ میڈیکل ڈاکٹر ذاکر نائیک انگریزی میں بڑی روانی سے اور منطقی انداز میں ادیان کے تقابلی مطالعے کے ساتھ اپنی بات کرتے ہیں، جس سے بالخصوص مسلم نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقہ خاصا متاثر ہے۔ مؤقر بھارتی روزنامے انڈین ایکسپریس نے 2010ء میں انہیں بھارت کی 100انتہائی مؤثر شخصیات میں سے ایک قرار دیا تھا جب کہ دنیا کی 500 انتہائی بااثر شخصیات کی فہرست میں بھی ان کا نام متعدد مرتبہ شامل کیا جا چکا ہے۔ 2015ء میں انہیں ’اسلامی دنیا کا نوبل پرائز‘ قرار دیا جانے والا سعودی عرب کا شاہ فیصل ایوارڈ بھی دیا گیا تھا اور یونیورسٹی آف گیمبیا انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے بھی نواز چکی ہے۔