بھارتی مسلمان: بی جے پی نے ارون دتی کے الزام کی تردید کر دی
20 اپریل 2020معروف بھارتی مصنفہ اور سرگرم سیاسی کارکن ارون دتی رائے نے گزشتہ جمعے کے روز ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں بھارت میں حکمران ہندو قوم پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر الزام لگایا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے دور اقتدار میں بھارت میں آج کی صورت حال 'مسلمانوں کی نسل کشی‘ کی طرف جا رہی ہے۔
ڈی ڈبلیو نیوز کے ساتھ اپنے اس انٹرویو میں انعام یافتہ بھارتی ناول نگار ارون دتی رائے نے یہ بھی کہا تھا کہ بھارت میں کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے سلسلے میں مودی حکومت کی طرف سے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں، وہ امتیازی ہیں اور ان کی آڑ میں حکومت اقلیتی مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
رائے کے اس واضح موقف پر بھارت میں حکمران جماعت بے جے پی اور اس کے حامی کارکنوں کی طرف سے شدید تنقید کی گئی تھی۔
بی جے پی کے ارکان کی طرف سے ارون دتی رائے کے اس دعوے کو بھی رد کر دیا گیا تھا کہ بھارت میں کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے لیے حکومتی کوششوں کے حوالے سے خاص طور پر مسلم مذہبی اقلیت کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔
اس تناظر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی ترجمان نلین کوہلی نے پیر بیس اپریل کو ڈی ڈبلیو نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں ارون دتی رائے کی طرف سے عائد کردہ الزامات کی تردید کی اور کہا کہ نئی دہلی میں مودی حکومت 'ہر بھارتی شہری کے لیے حکومت‘ ہے۔
نلین کوہلی نے، جو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان ہونے کے ساتھ ساتھ اس پارٹی کے وکیل بھی ہیں، اس ٹی وی انٹرویو میں ایسے دعووں کو بھی مسترد کر دیا کہ مودی حکومت کووڈ انیس نامی بیماری کے خلاف اپنی کوششوں کو بھارتی مسلمانوں کو مبینہ طور پر دبانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
نلین کوہلی نے کہا کہ ایسا بالکل نہیں ہے کہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے اس دوسرے سب سے بڑے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ کسی بھی قسم کا مبینہ امتیازی رویہ صورت حال کو 'نسل کشی کی طرف‘ لے جا رہا ہے۔
کوہلی نے کہا، ''بھارتی آئین کا آرٹیکل انیس ہر شہری کو آزادی اظہار اور آزادی رائے کی ضمانت دیتا ہے۔ اس میں سبھی شہری شامل ہیں، ارون دتی رائے بھی اور بھارتیہ جنتا پاڑتی کے ارکان بھی۔‘‘
وزیر اعظم مودی کی سیاسی جماعت کے ترجمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایسا تو نہیں ہے کہ یہ کورونا وائرس اپنا حملہ کرتے ہوئے یہ دیکھتا ہے کہ کون ہندو ہے، مسلمان، مسیحی، بدھ مت کا پیروکار یا پھر پارسی یا یہودی۔ اس لیے اگر لاک ڈاؤن کے تقاضوں کی خلاف ورزی کی جائے گی، قرنطینہ کے تقاضوں کی خلاف ورزی کی جائے گی، تو پھر بھارتی عوام اس وائرس سے محفوظ کیسے رہ سکیں گے۔‘‘
نلین کوہلی نے ایک سوال کے جواب میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بہت اہم بات یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی اور ملکی حکومت کے طور پر مودی انتظامیہ کی کوئی ایک بھی پالیسی یا فیصلہ ایسا نہیں، جس میں عام بھارتی شہریوں کے مابین کسی بھی قسم کی کوئی تفریق کی گئی ہو، خاص طور پر نسل، مذہب، ذات، برادری یا رنگ کی بنیاد پر تو کبھی بھی نہیں۔‘‘
م م / ع س (ڈی ڈبلیو)