1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی مسلمان: بی جے پی نے ارون دتی کے الزام کی تردید کر دی

20 اپریل 2020

وزیر اعظم مودی کی جماعت کے ترجمان نے ارون دتی رائے کے حالیہ الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی حکومت ’ہر بھارتی شہری کے لیے‘ حکومت ہے۔ رائے کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کے لیے صورت حال ’نسل کشی‘ کی طرف جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/3bAmC
بھارتی مسلمان خواتین کے اس سال جنوری میں نئی دہلی میں ایک احتجاجی مظاہرے کی تصویرتصویر: DW/M. Javed

معروف بھارتی مصنفہ اور سرگرم سیاسی کارکن ارون دتی رائے نے گزشتہ جمعے کے روز ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں بھارت میں حکمران ہندو قوم پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر الزام لگایا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے دور اقتدار میں بھارت میں آج کی صورت حال 'مسلمانوں کی نسل کشی‘ کی طرف جا رہی ہے۔

Coronavirus - Indiens Premierminister Narendra Modi
مودی حکومت ’ہر بھارتی شہری کے لیے‘ حکومت ہے، نلین کوہلیتصویر: picture-alliance/dpa/PTI/Twitter

ڈی ڈبلیو نیوز کے ساتھ اپنے اس انٹرویو میں انعام یافتہ بھارتی ناول نگار ارون دتی رائے نے یہ بھی کہا تھا کہ بھارت میں کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے سلسلے میں مودی حکومت کی طرف سے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں، وہ امتیازی ہیں اور ان کی آڑ میں حکومت اقلیتی مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔

رائے کے اس واضح موقف پر بھارت میں حکمران جماعت بے جے پی اور اس کے حامی کارکنوں کی طرف سے شدید تنقید کی گئی تھی۔

بی جے پی کے ارکان کی طرف سے ارون دتی رائے کے اس دعوے کو بھی رد کر دیا گیا تھا کہ بھارت میں کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے لیے حکومتی کوششوں کے حوالے سے خاص طور پر مسلم مذہبی اقلیت کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔

Arundhati Roy
بھارت میں مسلمانوں کی صورت حال ’نسل کشی کی طرف‘ جا رہی ہے، ارون دتی رائےتصویر: picture-alliance/ANSA/G. Onorati

اس تناظر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی ترجمان نلین کوہلی نے پیر بیس اپریل کو ڈی ڈبلیو نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں ارون دتی رائے کی طرف سے عائد کردہ الزامات کی تردید کی اور کہا کہ نئی دہلی میں مودی حکومت 'ہر بھارتی شہری کے لیے حکومت‘ ہے۔

نلین کوہلی نے، جو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان ہونے کے ساتھ ساتھ اس پارٹی کے وکیل بھی ہیں، اس ٹی وی انٹرویو میں ایسے دعووں کو بھی مسترد کر دیا کہ مودی حکومت کووڈ انیس نامی بیماری کے خلاف اپنی کوششوں کو بھارتی مسلمانوں کو مبینہ طور پر دبانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

نلین کوہلی نے کہا کہ ایسا بالکل نہیں ہے کہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے اس دوسرے سب سے بڑے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ کسی بھی قسم کا مبینہ امتیازی رویہ صورت حال کو 'نسل کشی کی طرف‘ لے جا رہا ہے۔

Indien Fotoreportage aus Neu Delhi nach den Ausschreitungen
نئی دہلی میں حالیہ فسادات کے بعد چاند باغ کے علاقے میں مسلمانوں کی جلی ہوئی دکانیںتصویر: DW/T. Godbole

کوہلی نے کہا، ''بھارتی آئین کا آرٹیکل انیس ہر شہری کو آزادی اظہار اور آزادی رائے کی ضمانت دیتا ہے۔ اس میں سبھی شہری شامل ہیں، ارون دتی رائے بھی اور بھارتیہ جنتا پاڑتی کے ارکان بھی۔‘‘

وزیر اعظم مودی کی سیاسی جماعت کے ترجمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایسا تو نہیں ہے کہ یہ کورونا وائرس اپنا حملہ کرتے ہوئے یہ دیکھتا ہے کہ کون ہندو ہے، مسلمان، مسیحی، بدھ مت کا پیروکار یا پھر پارسی یا یہودی۔ اس لیے اگر لاک ڈاؤن کے تقاضوں کی خلاف ورزی کی جائے گی، قرنطینہ کے تقاضوں کی خلاف ورزی کی جائے گی، تو پھر بھارتی عوام اس وائرس سے محفوظ کیسے رہ سکیں گے۔‘‘

نلین کوہلی نے ایک سوال کے جواب میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بہت اہم بات یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی اور ملکی حکومت کے طور پر مودی انتظامیہ کی کوئی ایک بھی پالیسی یا فیصلہ ایسا نہیں، جس میں عام بھارتی شہریوں کے مابین کسی بھی قسم کی کوئی تفریق کی گئی ہو، خاص طور پر نسل، مذہب، ذات، برادری یا رنگ کی بنیاد پر تو کبھی بھی نہیں۔‘‘

م م /  ع س (ڈی ڈبلیو)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں