دہلی گینگ ریپ اور قتل کے دس سال بعد خوف کی فضا برقرار
14 دسمبر 202223 سالہ جیوتی سنگھ اور ایک مرد دوست 16 دسمبر 2012ء کی شام کو ایکبس میں سوار ہوئے۔ ان پر وحشیانہ حملہ کیا گیا، لوہے کی سلاخ سے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور سڑک کے کنارے پھینک دیا گیا تھا۔ جیوتی سنگھ تاہم اتنی دیر تک زندہ رہی کہ وہ حملہ آوروں کی شناخت کرسکی۔ اس نے ''نربھایا‘‘، ''بے خوف‘‘ یا ''نڈر‘‘ کا لقب حاصل کیا۔
دس سال قبل کیا ہوا تھا؟
سولہ دسمبر 2012 ء کو 23 سالہ جیوتی سنگھ اپنے ایک دوست کے ساتھ رات گئے سنیما سے واپس گھر جانے کے لیے ایک بس میں سوار ہوئی۔ بس میں اوباش مردوں کا ایک گینگ موجود تھا۔ ان مردوں نے جیوتی کو اپنی جنسی حوس کا نشانہ بنایا اور اس کے ساتھ ناقابل ذکر انداز میں تشدد کیا۔ اجتماعی زیادتی اور انسانیت سوز مظالم کا شکار ہونے والی اس نوجوان خاتون کو بعد ازاں ان مردوں نے سڑک پر پھینک دیا تھا۔ جیوتی اپنے جس دوست کے ساتھ بس پر سوار ہوئی تھی، اُسے ان جنسی حملہ آوروں نے پہلے ہی بس سے اتار دیا تھا۔ جیوتی ان گھناؤنے جرائم کا شکار ہونے کے بعد چند دن زندہ رہی۔ اُسے علاج کی غرض سے سنگاپور بھیج دیا گیا تھا جہاں آخر کار وہ زندگی کی بازی ہار گئی۔ جیوتی سنگھ کی والدہ نے میڈیا کو بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ جیوتی نے مرنے سے قبل اُن سے یعنی اپنی ماں سے وعدہ لیا تھا کہ وہ اُس کے ساتھ بدترین زیادتی کرنے والے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور ان کی سزا کو یقینی بنانے کے لیے سب کچھ کریں گی۔
مجرموں کے ساتھ کیا ہوا؟
جیوتی کیس نے بھارت میں احتجاج اور مظاہروں کا طوفان برپا کر دیا تھا۔ اجتماعی زیادتی اور قتل کے اس کیس میں 6 ملزموں کو گرفتار کیا گیا۔ ان پر مقدمات چلے۔ ایک ملزم کو کچھ عرصے حراست میں رکھنے کے بعد اس لیے رہا کر دیا گیا کہ وہ نو عمر تھا۔ ایک دیگر ملزم نے جیل میں خود کُشی کر لی تھی جبکہ بقیہ چار کو موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ 19 مارچ 2020 ء کو پھانسی کی سزاؤں پر عمل درآمد ہوا اور ان چاروں مجرمان کو تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی۔
دہلی بس ریپ کیس کے آخری ملزم کی اپیل بھی مسترد
جیوتی کی ماں آشا دیوی نے اس پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا، '' آخرکار میری بیٹی کو انصاف مل گیا۔‘‘ جبکہ جیوتی کے والد نے کہا تھا کہ ان کا بھارت کی عدالت پر اعتماد بحال ہو گیا ہے۔
دس سال بعد بھی خواتین خوف کا شکار
جیوتی سنگھ کے ساتھ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والے شرمناک اور بہیمانہ جرائم کے واقعے کو ایک دہائی کا عرصہ گزر گیا تاہم اب بھی بہت سی خواتین بھارت کے دارالحکومت میں رات کے وقت سفر کرنے سے خوفزدہ ہیں، جو 20 ملین افراد پر مشتمل ایک وسیع و عریض شہر ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے متاثرہ خاتون کی ماں، اُس وقت کے چیف پولیس تفتیش کار، ایک کارکن، اور ایک نوجوان خاتون مسافر سے بات چیت کی۔نئی دہلی، ’خواتین کے مصائب کم نہ ہوئے‘
ماں کا بیان
''ظاہر ہے زخم بہت گہرے ہیں اور درد ختم نہیں ہوتا۔ جیوتی اُن 12 سے 13 دنوں کے دوران اتنی تکلیف میں تھی مگر زندہ تھی۔‘‘ جیوتی کی ماں نے اپنے دو بیڈ روم والے دہلی کے گھر میں اے ایف پی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے مزید کہا، ''کوئی انسان دوسرے انسان کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے؟ میری بیٹی کو سانس لینے میں بھی دشواری ہو رہی تھی۔‘‘
اس حملے کے بعد سے جیوتی کی والدہ آشا دیوی خواتین کے تحفظ کے لیے ایک نمایاں مہم کار بن گئی ہیں۔ جنسی حملوں اور زیادتیوں کا شکار ہو کر بچ جانے والوں کے خاندانوں کے ساتھ مشاورت کرتی ہیں، قانونی لڑائیوں میں ان کی مدد کرتی ہیں اور انصاف کے لیے احتجاج کرنے والوں میں شامل ہوتی ہیں۔
57 سالہ آشا دیوی نے اپنے شوہر کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں بچ جانے والی خواتین کے لیے ایک فنڈ قائم کیا ہے۔ اپنی بیٹی کے یادگاروں اور خواتین کے تحفظ اور ان کے حقوق کے لیے ان کی جدوجہد کے عوض انہیں کئی ایوارڈز مل چُکے ہیں اور اُن سے بھری شیشے کی کیبینٹ کے پاس اپنے گھر میں بیٹھ کر دیوی نے یہ بیانات دیے۔
ان کا کہنا تھا، ''میری بیٹی کی تکلیف نے مجھے یہ جنگ لڑنے کی طاقت دی۔‘‘
جیوتی سنگھ کیس پر ملک بھر میں شروع ہونے والے احتجاج اور پُر زور مظاہروں کی وجہ سے بھارت میں ریپکے خلاف سخت سزاؤں کا اعلان کیا گیا، مزید سی سی ٹی وی کیمرے اور اسٹریٹ لائیٹس نصب کرنے ، اور کچھ بسوں میں سیفٹی مارشلز تعینات کرنے جیسے اقدامات کیے گئے۔
یاد رہے کہ 2018 ء میں تھامس رائٹرز فاؤنڈیشن نے سینکڑوں ماہرین کی رائے پر مسشتمل خواتین کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک کی ایک فہرست شائع کی تھی جس کے مطابق بھارت میں دو ہزار سات سے دو ہزارسولہ کے درمیان خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم میں ایک سو تراسی فیصد اضافے کی نشاندہی کی گئی تھی۔ مزید برآں یہ کہ بھارت میں ہر گھنٹے پر چار ریپ واقعات ریکارڈ ہوتے ہیں۔
ک م/ ع ت (اے ایف پی)