بھارتی ٹیکسٹائل صنعت میں لاکھوں خواتین جدید غلامی کا شکار
26 مئی 2016بھارت میں ٹیکسٹائل کی صنعت کا مرکز ملک کے جنوبی حصے کو سمجھا جاتا ہے، جہاں لاکھوں کی تعداد میں کام کرنے والی نوجوان خواتین کارکن اپنے گھروں اور اہل خانہ سے دور رہتے ہوئے کام تو روزانہ سولہ سولہ گھنٹوں تک کرتی ہیں، لیکن انہیں ان کی اس مشقت کا معاوضہ اتنا ملتا ہے کہ بس وہ بمشکل زندہ رہ سکیں۔
انہی خواتین میں سے ایک مثال لیکھا کی ہے، جس نے اپنی اور اپنے خاندان کی تھوڑی سی خوشحالی کے لیے اپنے تمام خواب قربان کر دیے۔ لیکھا کا تعلق جنوبی بھارتی ریاست تامل ناڈو کے ایک گاؤن سے تھا۔ جب وہ سولہ برس کی تھی، تو ایک آدمی اس کے والدین کے گھر آیا۔ وہ ٹیکسٹائل کی مقامی صنعت میں نئی کارکنوں کی بھرتی میں مدد ینے والا ایک ایجنٹ تھا۔ اس نے لیکھا کے والدین کو اچھے مستقبل اور پرکشش آمدنی کے ایسے خواب دکھائے کہ مالی کسمپرسی کا شکار لیکھا کا والد انکار نہ کر سکا اور اس نے اپنی بیٹی اس ایجنٹ کی سرپرستی میں دے دی۔
یہ فیصلہ لیکھا کے لیے ’جہنم کا راستہ‘ ثابت ہوا۔ اس بھارتی لڑکی کو ٹیکسٹائل کی صنعت میں اس طرح کام کرنا پڑا کہ جلد ہی وہ بیمار پڑ گئی۔ پھر اسے تیز بخار اور پورے جسم میں شدید درد رہنے لگا لیکن کارکنوں کی نگرانی کرنے والے افراد کی طرف سے اسے مسلسل کام کرتے رہنے پر مجبور کیا جاتا رہا۔ اس دوران اسے کوئی طبی امداد بھی مہیا نہ کی گئی اور ایک دن نتیجہ یہ نکلا کہ اسے ہسپتال لے جانا پڑ گیا۔
پھر جب وہ کچھ صحت یاب ہوئی تو اس کے والد نے اسے سمجھا کر دوبارہ قائل کر لیا کہ اسے واپس اسی ٹیکسٹائل فیکٹری میں جا کر کام کرنا چاہیے کیونکہ ’اب اس کے حالات کار بھی کچھ بہتر ہوں گے اور خاندان کی مالی حالت بھی کچھ بدلنے لگی ہے‘۔ لیکن لیکھا جب واپس فیکٹری پہنچی تو جس طرح کی جدید غلامی کے سے حالات میں وہ پہلے وہاں کام کرتی تھی، وہ حالات تو ویسے ہی تھے۔
چند ہفتے بعد لیکھا نے دوبارہ اپنے والد سے درخواست کی کہ وہ آ کر اسے واپس گھر لے جائے، ورنہ وہ کام کرتے کرتے مر جائے گی۔ اس بار لیکھا کے والد نے اپنی بیٹی کی درخواست مان لی لیکن اس کی جسمانی حالت ایسی تھی کہ اس لڑکی کو گھر لانے کی بجائے ایک بار پھر ہسپتال لے جانا پڑ گیا۔ تب تک لیکھا اتنی کمزور اور بیمار ہو چکی تھی کہ ہسپتال پہنچائے جانے کے اگلے ہی روز اس کا انتقال ہو گیا۔
بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ جنوبی بھارت کی ٹیکسٹائل صنعت میں لیکھا کو ایک نوجوان کارکن کے طور پر جس طرح کی جدید غلامی اور جبری مشقت کے سے حالات سے گزرنا پڑا، وہ کوئی اکا دکا واقعہ نہیں تھا۔ اس بارے میں بھارت کی ایک غیر سرکاری تنظیم CIVIDEP اور جرمنی کے ایک غیر سرکاری ادارے FEMNET نے ابھی حال ہی میں ایک مطالعاتی رپورٹ بھی مرتب کی، جسے ’جنوبی بھارت کی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں خواتین کارکنوں کو درپیش غلامی کی جدید شکل‘ کا عنوان دیا گیا۔
’سماجی شعور اور رضاکارانہ تعلیم‘ یا SAVE نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے اندازوں کے مطابق اکثر دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی ٹیکسٹائل فیکٹریوں کی ایسی نوجوان خواتین کو ان صنعتی اداروں میں تین تین سال کے لیے کام کرنے کا پابند بنا دیا جاتا ہے۔ صرف ایک جنوبی بھارتی ریاست تامل ناڈو ہی میں ٹیکسٹائل کی ایسی قریب دو ہزار فیکٹریاں قائم ہیں، جن میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق تین سال پہلے تک قریب دو لاکھ 70 ہزار کارکن کام کرتے تھے۔
’سیو‘ نامی این جی او کے مطابق تین سال پہلے بھی ان فیکٹریوں میں کام کرنے والے کارکنوں کی تعداد چار لاکھ کے قریب تھی، جن میں بہت بڑی اکثریت خواتین اور لڑکیوں کی تھی۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ان کارکنوں نے جب وہاں پر کام کرنا شروع کیا تھا، تو اس وقت ایسی تین چوتھائی سے زیادہ لڑکیاں نابالغ تھیں۔
ایسی خواتین کارکن نہ صرف ان فیکٹریوں میں کام کرتی ہیں بلکہ ان میں سے بہت سی تو رہتی بھی انہیں فیکٹریوں میں ہیں۔ انہیں ان کی مشقت کی اجرت ہر ہفتے یا ہر مہینے نہیں بلکہ تین سالہ مدت پوری ہونے کے بعد دی جاتی ہے۔ اس بارے میں جرمن این جی او ’فَیم نیٹ‘ کی مطالعاتی رپورٹ کی مصنفہ آنیبَیل فیروس کومِیلو کہتی ہیں، ’’ایسی خواتین کے اکثر کوئی ذاتی حقوق نہیں ہوتے، کئی واقعات میں تو وہ خود کشی بھی کر لیتی ہیں۔ گزشتہ چار برسوں کے دوران ایسی بھارتی فیکٹریوں میں، جن میں مغربی ملکوں میں ملبوسات کے بڑے بڑے اسٹوروں کے لیے مصنوعات تیار کی جاتی ہیں، کارکنوں کی مشکوک حالات میں موت کے کم از کم 86 واقعات پیش آ چکے ہیں۔‘‘
بھارتی این جی او ’سِیوی ڈَیپ‘ کے مطابق ایسی فیکٹریوں میں قانونی طور پر کارکنوں کی کم از کم ماہانہ اجرت 113 یورو کے برابر رکھی گئی ہے۔ لیکن جو معاوضہ ایسی خواتین کو ادا کیا جاتا ہے، وہ مشکل سے محض 19 یورو ماہانہ کے برابر بنتا ہے، ان کی کم از کم ماہانہ قانونی اجرت کا صرف چھٹا حصہ۔