بھارتی پارلیمان اور مجرمانہ پس منظر والے سیاستدان
18 مئی 2009لوک سبھا کہلانے والے 543 رکنی نئے بھارتی ایوان زیریں کے لئے ہونے والے حالیہ انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے جملہ اراکین میں سے 150 ایسے ہیں جن کی خلاف مجرمانہ نوعیت کے مقدمات درج ہیں۔ یہ تعداد 2004 میں لوک سبھا کے رکن چنے جانے والے مجرمانہ پس منظر کے حامل سیاستدانوں کی تعداد کے مقابلے میں 17.2 فیصد زیادہ ہے۔
حالیہ انتخابات پر نگاہ رکھنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم نیشنل الیکشن واچ کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پانچ سال قبل منتخب ہونے والے 128 اراکین پارلیمان کے خلاف مجرمانہ نوعیت کے الزامات میں مقدمات درج تھے اور ان میں سے 55 کے خلاف الزامات انتہائی سنگین نوعیت کے جرائم کے ارتکاب سے متعلق تھے۔
اس مرتبہ منتخب ہونے والے اراکین میں سے 150 کو اپنے خلاف جرائم کے مبینہ ارتکاب کے الزامات کا سامنا ہے جن میں سے 73 نو منتخب ارکان کے خلاف الزامات کی نوعیت انتہائی سنجیدہ ہے۔ اس طرح ایسے اراکین کی تعداد میں 17.2 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جو ہیں تو مجرمانہ پس منظر کے حامل لیکن اب وہ لوک سبھا کے نو منتخب ارکان ہیں۔ اس طرح سنگین نوعیت کے مقدمات میں ملوث نو منتخب اراکین پارلیمان کی تعداد میں بھی 30.9 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
نیشنل الیکشن واچ کی رپورٹ کے مطابق جرائم کے سب سے زیادہ مقدمات گجرات سے منتخب ہونے والے کانگریس پارٹی کے رکن وٹھل بھائی ہنس راج بھائی رڈاڈیا کے خلاف درج ہیں۔ انہیں اپنے خلاف 16مقدمات کا سامنا ہے جن میں سے پانچ سنگین نوعیت کے ہیں۔ تعزیرات ہند کے تحت اپنے خلاف سب سے زیادہ عدالتی مقدمات کا سامنا بہار کے جہان آباد سے منتخب ہونے والے جنتا دل یونائٹیڈ کے رکن جگدیش شرما کو ہے۔
نیشنل الیکشن واچ کے قومی کنوینرانل بیروال نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ یہ امر انتہائی تشویشناک ہے اور عوام کو چاہئے کہ وہ سیاسی پارٹیوں سے اس بات کا جواب طلب کریں کہ انہوں نے ایسے سیاستدانوں کو پارٹی ٹکٹ دے کر پارلیمان میں کیوں بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ جرائم میں ملوث افراد کی قومی پارلیمان میں بڑھتی ہوئی تعداد کے لئے صرف اور صرف سیاسی جماعیتں ہی ذمہ دار ہیں۔
انل بیروال کے بقول بھارت کے عوام اگرچہ ایماندار رہنما منتخب کرناچاہتے ہیں لیکن اس معاملے میں وہ خود کو اکثر مجبور پاتے ہیں کیونکہ سیاستدانوں کو انتخابی ٹکٹ تو سیاسی پارٹیاں ہی جاری کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ووٹر چاہتا ہے کہ وہ ایماندارامیدوار کو ووٹ دے لیکن جب پارٹیاں مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے افرادکو ٹکٹ دیتی ہیں تو عام شہریوں کے لئے فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے اراکین پارلیمان میں سے ریاستی بنیادوں پر سب سے زیادہ کا تعلق اترپردیش ہے جو 31 بنتی ہے۔ اس کے بعد مہاراشٹر (23)، بہار (17)، آندھرا پردیش (11) اور گجرات(11) کے نام آتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس بار کروڑ پتی اراکین پارلیمان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس مرتبہ 300 کروڑ پتی بھارتی شہری پارلیمانی رکن منتخب ہوئے ہیں جب کہ گذشتہ پارلیمان میں ایسے افراد کی تعداد 154 تھی۔ ان میں آندھرا پردیش کے کھمم حلقے سے تیلگو دیشم کے رکن نما ناگیشور راو سرفہرست ہیں۔ اپنے حلف نامے میں انہوں نے 173 کروڑ روپے کے اثاثوں کا ذکر کیا تھا۔ دوسرے نمبر پر ہریانہ کے کروکشیتر سے منتخب ہونے والے کانگریس پارٹی کے نوین جندل ہیں۔ صنعت کار نوین جندل، خود اپنے انتخابی گوشواروں کے مطابق، 131 کروڑ روپے کے اثاثوں کے مالک ہیں۔
انل بیروال کا کہنا ہے کہ یہ بھی کافی تشویش کی بات ہے اور اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ سیاسی پارٹیاں اب صرف امیر امیدواروں کو ہی ٹکٹ دیتی ہیں اورکم پیسے والا کوئی عام شہری الیکشن لڑنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی پارٹیاں ہی اس صورت حال پر قابو پاسکتی ہیں۔ " 1999 میں لا ءکمیشن نے کہا تھا کہ پارٹیوں کو مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے افراد کو ٹکٹ نہیں دینا چاہئے جب کہ 2002 میں آئینی جائزہ کمیشن نے کہا تھا کہ نیا قانون بناکر مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے افرادکو ہمیشہ کے لئے انتخابات میں حصہ لینے سے روک دینا چاہئے ۔ لیکن چونکہ پارلیمان میں مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے اراکین کی تعداد کافی ہے اس لئے وہ اس طر ح کے کسی قانون کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔