بھارتی کشمیر، خوف احتجاج کو کھا گیا
20 اگست 2021خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے لوگوں کو گرفتاریاں اور خوف کا ماحول ہی نہیں بلکہ اختلاف کرنے والوں کے فون چھین لینا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانے جیسے اقدامات نے ایک سکوت پیدا کر دیا ہے۔
کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کے خاتمے سے ایک ہفتہ قبل ہی مقامی افراد کی جانب سے کسی ردعمل کو روکنے کے لیے سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی اور ہزاروں افراد کو قید کر دیا گیا تھا۔ رفیق ایسے ہی افراد میں سے ایک تھا۔
افغانستان کے معاملے پر بھارت شش و پنج میں مبتلا
کشمیر: او آئی سی کے بیان پر بھارت کی ناراضگی
سلامتی کو لاحق ممکنہ خطرات کی بنا پر اے ایف پی نے اس کشمیری کا اصل نام ظاہر نہیں کیا ہے۔ ان کے مطابق انہیں گرفتار کرنے کی وجہ ماضی میں ان کا مظاہروں میں شریک ہونا بنا۔ رفیق کے مطابق وہ ماضی میں 'ناانصافی کے خلاف ایک مظاہرے‘ میں شریک ہوئے تھے۔
ایک برس تک قید میں رکھنے کے بعد اس 26 سالہ کشمیری نوجوان کو اب رہا کر دیا گیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ 'تباہ‘ ہو چکا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق اس شخص کی روداد درجنوں دیگر کشمیریوں سے مختلف نہیں ہے۔ رفیق اور ان کے ساتھ دیگر تیس افراد کو فوجی جہاز کے ذریعے سینکڑوں میل دور ایک جیل میں رکھا گیا جہاں انہیں 'تشدد اور دھمکیوں‘ کا ہدف بنایا گیا۔
ان کا کہنا تھا، ''چھ ماہ تک میرے قیدخانے میں رات کے وقت انتہائی تیز روشنی رکھی جاتی تھی، میں اب بھی نہیں سمجھ پا رہا کہ ہمیں وہاں سے زندہ واپس کیسے آ گیا؟‘‘
رفیق تو بلآخر رہا ہو گیا تاہم انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق ایسے درجنوں کشمیری ہیں، جو بھارت کی جیلوں میں بند ہیں۔
پانچ بچوں کی والدہ تسلیمہ نے اپنے شوہر گلزار احمد بھٹ کو ایک برس سے نہیں دیکھ پائیں۔ بھٹ پہلے ایک علیحدگی پسند گروپ میں شامل تھا تاہم اس نے اس گروپ کو 2016 میں چھوڑ دیا۔
پچھلے برس پولیس انہیں گرفتار کرنے پہنچی تو وہ اس وقت گھر پر نہیں تھے۔ ایسے میں ان کے 23 سالہ بھتیجے کو پولیس ساتھ لے گئی، اور یوں بھٹ کو اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کرنا پڑا۔
تسلیمہ روتے ہوئے بتاتی ہیں، ''میں قریباﹰ بھیک مانگ پر اپنے بچوں کو روٹی کھلاتی ہوں۔‘‘
بھارت نے منقسم کشمیر میں اپنے انتظام والے حصے میں نصف ملین سے زائد فوج تعینات رکھی ہے۔ یہ فوجی علیحدگی کے لیے مسلح جدوجہد کرنے والے باغیوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
نریندر مودی نے دو برس قبل اگست 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس اقدام کا مقصد کشمیر میں امن کا قیام ہے۔ کشمیر میں اب تک مقامی حکومت قائم نہیں ہے بلکہ نئی دہلی کے مقرر کردہ لیفٹینٹ گورنر اس علاقے کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ اس وقت بھارت کے انتظام والے کشمیر میں کسی فیصلہ ساز پوزیشن پر شاید ہی کوئی کشمیری براجمان ہو۔ اے ایف پی کے مطابق پولیس اور بیوروکریسی میں تمام اہم پوزیشنوں پر اب بھارت کے دیگر علاقوں کے لوگ تعینات ہیں۔
ع ت / ش ح (اے ایف پی)