بھاروت غاریں: بھارت میں پارسی ماضی کا عظیم ورثہ
15 اگست 2010غاروں کے اس کمپلیکس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہومی ڈھیلا کہتے ہیں اگر ان غاروں کا تحفظ مقصود ہے تو عالمی برادری کو جلد ازجلد عملی اقدامات کرنے ہوں گے، اس سے پہلے کہ بہت تاخیر ہو جائے۔ یہ غاریں ایسی قدیم باقیات ہیں،جوکہ صدیوں پرانی ہیں اور پھر نسلوں تک نظر انداز کئے جانے کی وجہ سے اب منہدم ہونے کو ہیں۔
یہ غاریں بھارت میں آگ کی پوجا کرنے والی پارسی برادری کے لئے اتنی اہم ہیں کہ بڑی تعداد میں پارسی ہر سال ان کی زیارت کے لئے مغربی بھارت کے اس خطے کا رخ کرتے ہیں ۔
پارسی عقیدے کی روایت کے مطابق چودھویں صدی عیسویں میں بھارت میں آج کی پارسی نسل کے آباو اجداد مغلوں کی فوجی پیش قدمی سے بچنے کے لئے انہی غاروں میں پناہ گزین ہوئے تھے، تب وہ اپنے ساتھ وہ اصلی آگ بھی لے گئے تھے، جسے پارسی عقیدے کے مطابق مقدس سمجھا جاتا ہے۔
ایک عام کہاوت یہ بھی ہے کہ بھارت میں پارسیوں کی طرف سے عبادت کے لئے جلائی جانے والی پہلی مقدس آگ کو اس غار میں رہنے والے دو پارسیوں نے بارہ سال تک مسلسل جلائے رکھا تھا۔
اس آگ کو پارسی عقیدے میں ' ایران شاہ' کا نام دیا جاتا ہے۔ ان دنوں ان تاریخی غاروں کو منہدم ہونے سے بچانے کے لیے ہومی ڈھیلا اور ان کے ساتھیوں نے ایک ایسی تحریک بھی شروع کر رکھی ہے، جس کا مقصد آثار قدیمہ کے بھارتی محکمے کی طرف سے اس امر کو یقینی بنانا ہےکہ وہ ان غاروں کی مرمت کرے۔ اس مقصد کے لئے بھارت میں پارسیوں کی ایک ویب سائٹ کے ذریعے عوامی دستخط بھی جمع کئے جا رہے ہیں۔ اب تک اس درخواست پر قریب تین ہزار افراد دستخط کر چکے ہیں اور اس تحریک میں Zoroastrains.net نامی ویب سائٹ مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔
بھارت میں پارسی باشندوں کی ایک بہت بڑی تعداد ممبئی میں رہتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر پارسیوں کی ایک ثقافتی تنظیم کا نام عالمی زاراتشتی ثقافتی فاونڈیشن ہے، جس کے بانی صدر ہوس ڈھالا ہیں۔انہوں نے ممبئی میں اپنی رہائش گاہ پر فرانسیسی خبر رساں ایجنسیAFP کو بتایا کہ اگر وہ سات ہزار سے لے کر آٹھ ہزار تک دستخط حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ ان کی اس تحریک کی بڑی کامیابی ہو گی اور وہ ان نتائج پر مطمئن ہوں گا۔
ہومی ڈھالا کے بقول اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ اگر بھارتی پارس باشندوں نے اپنے اس مقدس مذہبی اور ثقافتی ورثے کو ہمیشہ کے لئے ناپید ہو جانے سے بچانا ہے، تو انہیں فوری طور پر کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا۔ یہ غاریں بھارت کی دو ریاستوں مہاراشٹر اور گجرات کی باہمی سرحد کے قریب سنجن نامی علاقے کے قریب واقع ہے۔
ماہرین کے بقول آگ کی پوجا کرنے والے پارس،جو زرتشت کے پیروکار ہونے کی وجہ سے زرتشتی یا Zoroastrain کہلاتے ہیں، جبر اور استحصال سے بچنے کے لیے قدیم ایران سے فرار ہو کر دسویں صدی میں بھارت پہنچے تھے۔ بھارت میں ان پارسیوں نے گزشتہ کئی صدیوں کے دوران بہت ترقی کی اور ان میں سے بہت سے ایسے صنعتکار ، اساتذہ ، موسیقار، فنکار اور مصنفین ایسے بھی ہیں جنھوں نے بھارت اور بیرون دنیا میں اپنے لیے بے تحاشا نام پیدا کیا۔
بھارت کے مشہور ترین پارسی خاندان میں ٹاٹا فیملی بھی شامل ہے جو ملک کے ایک بہت بڑے صنعتی گروپ کی مالک ہے۔ لیکن کثیر النسلی بھارت میں سب سے کامیاب اور مشہور اقلیت سمجھی جانے والی پارسی برادری کی آبادی مسلسل زوال کا شکار ہے۔ دوہزار ایک کی گزشتہ مردم شماری کے مطابق بھارت میں پارسیوں کی کل تعداد مذید کم ہو کر ستر ہزار سے کچھ ہی زائد رہ گئی تھی۔
پارسی دانشوروں کے بقول مغربی بھارت میں غاروں کے بھاروت کمپلیکس کو ناپید ہو جانے سے بچانے کی کوشش اس لیے اشد ضروری ہے کہ اس ملک میں پارسیوں کے ماضی کو ثقافتی طور پر محفوظ بنانے کے لیے وقت کم ہوتا جا رہا ہے۔
رپورٹ : عصمت جبیں
ادارت : عاطف توقیر