1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھاری جرمانہ کیا پاکستانی معیشت کے لیے دھچکا ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
20 ستمبر 2017

سرمایہ کاری کے تنازعات کا تصفیہ کرنے والے ایک عالمی ادارے نے پاکستان پر سات سو ملین ڈالرز کا جرمانہ عائد کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2kOP7
Bildergalerie Lahore Metro Bus Service Projekt
تصویر: Tanvir Shahzad

انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبون کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ جرمانہ پاکستانی حکومت کو ایک ترک کمپنی کو دینا پڑے گا، جو اس مقدے کو لے کر وہاں گئی تھی۔
Karkey Karadeniz Elektrik Uretim ASنامی اس کمپنی نے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں پاکستان سے رینٹل پاور پروجیکٹ کا پانچ سالوں کے لیے معاہدہ کیا تھا لیکن حکومت وقت کے وزراء اور افسران پر اس پروجیکٹ کے حوالے سے کرپشن کے الزامات لگائے گئے تھے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے مداخلت کرتے ہوئے حکومت کو آوٹ آف دی کورٹ سیٹلمنٹ سے روک دیا تھا۔ اس پروجیکٹ میں کرپشن کے حوالے سے مقدمات نیب میں چل رہے ہیں۔

پاکستان ’باغی‘ گولن کے زیر انتظام اداروں کو بند کرے، ترکی کا مطالبہ

’مسئلہ کشمیر کا حل صرف دوطرفہ مکالمت سے ہی ممکن‘: بھارت

ترک صدر ایردوآن بھارت کے دورے پر

مبصرین کے خیال میں ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کے قرضوں کا حجم بڑھ رہا ہے، برآمدات کم ہورہی ہیں اور موجودہ خسارے میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، یہ جرمانہ پاکستان کے معیشت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔کچھ مبصرین اس جرمانے کے بعدپاکستان اور ترکی کے تعلقات بھی متاثر ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ نے اس حوالے سے کہا، ’’گو کہ ترکی کے ساتھ ہمارے تعلقات برادرانہ ہیں، لیکن شریف فیملی اور کچھ غیر ملکی کمپنیوں کے درمیان تعلقات کی خبریں ذرائع ابلاغ میں گردش کرتی رہی ہیں اور ایسی بھی خبریں آئی ہیں کہ ترک کمپنیوں کو ترجیحی سہولیات دی گئیں۔ تو اگر ملک میں کوئی سیاسی تبدیلی ہوتی ہے، تو یہ سہولیات واپس لے لی جائیں گی اور اگر نیب یا دوسرے اداروں نے اس پر سخت اقدامات کیے تو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ نیب اور دوسرے ادارے اس جرمانے کو کیسے دیکھتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ رینٹل پاور پروجیکٹ میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی تھی۔ ’’سپریم کورٹ نے بھی اس کا نوٹس لیا تھا لیکن وہ بھی معاملے کو کسی منظقی انجام تک نہیں پہنچا سکی ۔ یہ جرمانہ ہماری حکومت اور اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے، جنہوں نے معاملے کو صحیح طریقے سے ہینڈل نہیں کیا۔‘‘
لیکن سیاسی تجزیہ نگار یہ سمجھتے ہیں کہ معاشی اور کاروباری معاملات ریاستوں کی سیاسی پالیسی پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ نیشنل یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ادارہ برائے عالمی امن و استحکام سے وابستہ ڈاکڑ بکر نجم الدین نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میرے خیال میں پاکستان اور ترکی کے تعلقات کوئی خاص متاثر نہیں ہوں گے کیونکہ ریاستوں کی نظر میں مجموعی تعلقات زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ امریکا اور برطانیہ قریبی اتحادی ہیں لیکن جب ایک تیل کی کمپنی پر امریکا نے بھاری جرمانہ عائد کیا تو برطانیہ نے اس مسئلے پر امریکا سے اپنے تعلقات خراب نہیں کیے کیونکہ ریاستوں کے تعلقات صرف کاروبار کے گرد ہی نہیں گھومتے۔‘‘
معروف معیشت دان ڈاکڑ قیصر بنگالی نے اس جرمانہ کو پاکستان کی کمرشل ساکھ کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا قرار دیا۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’یہ جرمانہ صرف پاکستان کی معیشت کے لیے ہی ایک بڑا دھچکا نہیں ہے بلکہ دنیا میں ہماری کمرشل ساکھ کے لیے بھی ایک دھچکا ہے۔ بین الاقوامی کمپنیاں ہم پر اعتبار نہیں کریں گی کیونکہ ہم اپنے معاہدوں سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ وزارتِ خزانہ، پلاننگ اور دوسرے متعلقہ ادارے حکومتِ وقت کو خوش کرنے کے لیے معاہدے کرتے وقت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے، جس سے ملک کو نقصان ہوتا ہے۔‘‘

ترک - یورپی یونین کشیدگی، مہاجرین کی ڈیل کا کیا ہو گا؟