بیشتر امریکی افغان معاشرے کو سمجھ نہیں پائے، کائی ایڈی
3 نومبر 2010ایڈی نے رواں سال مارچ میں افغانستان میں اپنی ذمہ داریوں کے دو سال مکمل کئے تھے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو میں انہوں نے افغانستان سے فوج واپس بلوانے سمیت دیگر امریکی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کے بقول امریکی سیاست کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر فوج واپس بلانے کا فیصلہ نہیں بلکہ زمینی حقائق کو ترجیح دے کر یہ قدم اٹھایا جانا چاہئے۔
پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکی صدر اوباما کے خصوصی مندوب رچرڈ ہالبروک پر انگلی اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا وہ افغان معاشرے اور وہاں کے مسائل کو نہیں سمجھتے۔ انہوں نے کہا، ’یہ بلقان نہیں کہ جہاں آپ لوگوں کو ڈرا دھمکا کر اور بیوقوف بناکر فیصلے تسلیم کرنے پر مجبور کرسکیں۔ افغان معاشرے اور سیاسی منظر نامے کو بہت سے اہم امریکی نمائندوں نے نہیں سمجھا اور نہ اس کا احترام کیا ہے۔’
افغان صدر حامد کرزئی کے متعلق ایڈی نے کہا، ’میں نے ان کی خامیاں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ قریب سے دیکھی ہیں تاہم مجموعی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے ان سے مناسب رویہ اختیار نہیں کیا۔’ واضح رہے کہ مغرب میں افغان صدر پر انتخابی دھاندلیوں اور بدعنوانی کو نہ روک پانے کے سبب خاصی تنقید کی جاتی ہے۔
طالبان کے ساتھ بات چیت کے بارے میں کائی ایڈی نے موجودہ دَور کو انتہائی موزوں قرار دیا۔ ’اب سے لے کر آئندہ سال کے آغاز تک کا وقت انتہائی موزوں ہے، اس عرصے میں جنگ کے میدان میں کسی حد تک سکون رہتا ہے اور اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طالبان کے ساتھ ابھرتے رابطوں کو منظم کیا جاسکتا ہے۔’
ایڈی نے تسلیم کیا کہ افغانستان کے پڑوسیوں، طالبان، بین الاقوامی برادری اور خود افغان حکومت کو چند مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ ایڈی اس سے قبل انکشاف کرچکے ہیں کہ کابل حکومت کے طالبان کے ساتھ اعلیٰ سطح پر رابطے ہیں۔ تازہ انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ اسے پوشیدہ رکھا جائے۔
ناروے سے تعلق رکھنے والے کائی ایڈی افغانستان میں اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب، ’’High Stakes in Afghanistan‘‘ جلد شائع کرنے والے ہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: ندیم گِل