1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستتائیوان

تائیوان الیکشن: اگلے صدر چین کے ناقد امیدوار لائی ہوں گے

13 جنوری 2024

مشرقی ایشیا کی جزیرہ ریاست تائیوان میں ہفتہ تیرہ جنوری کو منعقدہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے جزوی نتائج کے مطابق نئے صدر موجودہ حکمران جماعت ہی سے تعلق رکھنے والے امیدوار اور چین کے کڑے ناقد لائی چِنگ تے ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/4bCou
تائیوان میں صدارتی الیکشن کے فاتح حکومتی امیدوار لائی چنگ تے
لائی چنگ تے چین کے ساتھ ’احترام، وقار اور برابری کی بنیاد‘ پر رابطے چاہتے ہیںتصویر: Ann Wang/REUTERS

تائیوان کے دارالحکومت تائی پے سے مقامی وقت کے مطابق ہفتہ کی رات موصولہ رپورٹوں کے مطابق ملکی عوام نے آج کی راءے دہی میں یہ واضح فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ چین کے ساتھ، جو تائیوان کو اپنا ایک باغی صوبہ قرار دیتا ہے، تعلقات کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔

تائیوان کے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں ووٹنگ مکمل

اس کا ایک ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ موجودہ حکمران جماعت ڈہموکریٹک پروگریسو پارٹی یا ڈی پی پی سے تعلق رکھنے والے امیدوار اور چین پر سخت تنقید کی وجہ سے مشہور سیاست دان لائی چِنگ تے نے ابتدائی غیر سرکاری نتائج کے مطابق نہ صرف یہ صدارتی الیکشن بظاہر جیت لیا ہے بلکہ ان کے دونوں بڑے حریف اپوزیشن امیدواروں میں سے ایک نے اپنی انتخابی ناکامی بھی تسلیم کر لی ہے۔

اہم بات یہ کہ بیجنگ میں چینی حکومت نے تائیوانی عوام کو آج کے الیکشن کے حوالے سے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ عوام حکومتی جماعت کے امیدوار لائی کو ووٹ نہ دیں۔ بیجنگ حکومت لائی کو 'علیحدگی پسند‘ قرار دیتی ہے۔

تائیوان کے موجودہ نائب صدر لائی چنگ تے ہفتے کے روز تائی پے میں اپنا ووٹ ڈالتے ہوئے
چین لائی چنگ تے کو ایک ’علیحدگی پسند‘ سیاست دان قرار دیتا ہےتصویر: Annabelle Chih/Getty Images

لائی کی طرف سے ووٹروں کا شکریہ

تائی پے سے آمدہ رپورٹوں کے مطابق ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی کے صدارتی امیدوار لائی چِنگ تے نے اپنی کامیابی پر تائیوان کے عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اس ریاست کی تاریخ میں ایک ''نیا باب رقم کر دیا ہے۔‘‘

اپنی کامیابی کے بعد ایک خطاب میں 64 سالہ لائی نے کہا، ''ہم ان انتخابی نتائج کے ساتھ بین الاقوامی برادری کو بتا رہے ہیں کہ اگر انتخاب جمہوریت اور خود پسندانہ طرز حکومت کے مابین ہو، تو تائیوان جمہوریت کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گا۔‘‘

'تائیوان سے چین کا دوبارہ اتحاد ناگزیر ہے'، چینی صدر

ساتھ ہی لائی نے، جن کا پور انام ولیم لائی چِنگ تے ہے، اپنے ہم وطنوں سے کہا، ''تائیوان کے عوام نے بیرونی قوتوں کی طرف سے ان انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی تمام کوششوں کے خلاف کامیاب مزاحمت کی ہے۔‘‘

موجودہ صدر سائی انگ وین جو قانوناﹰ تیسری مرتبہ ملکی صدر منتخب نہیں ہو سکتی تھیں
موجودہ صدر سائی انگ وین جو قانوناﹰ تیسری مرتبہ ملکی صدر منتخب نہیں ہو سکتی تھیںتصویر: Carlos Garcia Rawlins/REUTERS

لائی اب تک نائب صدر تھے

تائیوان کے نو منتخب صدر لائی چِنگ تے اب تک اپنی ہی پارٹی سے تعلق رکھنے والی اور اس وقت اپنے عہدے کے دوسری مدت کے لیے صدارتی منصب پر فائز خاتون سیاستدان سائی اِنگ وین کے نائب کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

ملکی اپوزیشن کے اپنے مرکزی حریف کی طرف سے شکست کے اعتراف کے بعد یہ بات یقینی ہے کہ آج کے الیکشن کے فاتح اور آئندہ ملکی صدر لائی چِنگ تے ہی ہوں گے۔

تائیوان کے اطراف میں چینی اقدامات سے کشیدگی میں اضافہ، جرمنی

آخری خبریں آنے تک ڈالے گئے ووٹوں کی جتنی گنتی تب تک مکمل ہو چکی تھی، ان میں سے لائی چِنگ تے 40 فیصد تک تائید کے ساتھ اپنے حریف امیدواروں سے بہت آگے تھے۔

اخبار تائی پے ٹائمز کے مطابق حکمران جماعت کے صدارتی امیدوار لائی تقریباﹰ 44 فیصد عوامی تائید کے ساتھ اپنے مخالف امیدواروں سے بہت آگے ہیں۔

تائیوان کیا چین سے مسلح تنازعہ کا متحمل ہو سکتا ہے؟

عومی شرکت کا تناسب تقریباﹰ تین چوتھائی

تائیوان میں آج صدارتی کے ساتھ ساتھ پارلیمانی الیکشن بھی ہوئے، جن کے جزوی نتائج ابھی واضح ہونا شروع نہیں ہوئے۔ اس لیے یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ تائی پے میں قومی پارلیمان میں اکثریت آئندہ کس پارٹی کو ملے گی۔

اس الیکشن میں تقریباﹰ 19.5 ملین ووٹروں کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ مقامی وقت کے مطابق ووٹنگ صبح آٹھ بجے شروع ہو کر سہ پہر چار بجے تک جاری رہی۔

چین نے تائیوان کے اطراف میں جنگی جہاز تعینات کر دیے

ابتدائی اندازوں کے مطابق ان انتخابات میں ووٹروں کی شرکت کا تناسب تقریباﹰ 75 فیصد رہا، جو اتنا ہی بنتا ہے، جتنا کہ اوسطاﹰ ماضی میں بھی دیکھنے میں آتا رہا ہے۔

2020ء میں ہونے والے گزشتہ الیکشن میں عوامی شرکت کا تناسب 82 فیصد سے زائد رہا تھا۔ یہ تناسب آج تک کبھی بھی دو تہائی یا 66.6 فیصد سے کم نہیں رہا۔

موجودہ خاتون صدر سائی اِنگ وین اس مرتبہ صدارتی عہدے کے لیے خود امیدوار نہیں تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس وقت اپنے صدارتی منصب کی دوسری مدت کے لیے فرائض انجام دے رہی ہیں اور قانون کے مطابق تیسری مرتبہ اس عہدے پر فائز نہیں ہو سکتیں۔

م م / م ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)