تارکین وطن جرمن لیبر مارکیٹ کا خلاء پر کرنے کے لیے پرعزم
15 اگست 2018خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے وفاقی جرمن شماریاتی ادارے کے اعدادوشمار کے حوالے سے بتایا ہے کہ گزشتہ برس کے دوران ملازمتوں کے لیے تربیتی پروگراموں میں اندارج کروانے والے ایسے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جو جرمنی میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔
سن دو ہزار سات کے دوران مہاجرین اور تارکین وطن افراد کی بڑی تعداد نے جرمن لیبر مارکیٹ کا حصہ بننے کے لیے درخواستیں دیں۔
سن دو ہزار سولہ کے مقابلے میں گزشتہ برس اس تعداد میں 36.2 فیصد کا اضافہ نوٹ کیا گیا۔ جرمن حکام کے مطابق سن دو ہزار سترہ میں ایسے نوجوان افراد کی تعداد پانچ لاکھ پندرہ ہزار سات سو رہی، جنہوں نے مختلف تربیتی پروگراموں میں شرکت کی۔ یہ امر اہم ہے کہ سن دو ہزار ایک کے بعد پہلی مرتبہ ان افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
وفاقی جرمن دفتر برائے محنت کی طرف سے گزشتہ ماہ جاری کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق جولائی میں جرمنی میں خالی ملازمتوں کی تعداد آٹھ لاکھ بائیس ہزار سے زائد تھی۔ جون میں یہ تعداد آٹھ لاکھ پانچ ہزار سے زائد تھی جبکہ جولائی سن دو ہزار سات میں تقریبا ساڑھے سات لاکھ سے زائد تھی۔
بتایا گیا ہے کہ شام اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان تارکین وطن افراد کی طرف سے تربیتی پروگراموں میں اندراج کی خاطر سب سے زیادہ درخواستیں جمع کرائی گئیں۔
شام اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تقریبا دس ہزار ایسے نوجوان تارکین وطن افراد نے سن دو ہزار سترہ مختلف تربیتی پروگراموں میں شرکت کی، جو سن دو ہزار سولہ کے مقابلے میں تین گنا سے بھی زیادہ تعداد بنتی ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں ایسے پروگراموں میں شرکت کرنے والے شامی اور افغان نوجوانوں کی تعداد صرف تین ہزار تھی۔
سن دو ہزار سترہ کے دوران سات سو بیس شامی اور افغان خواتین نے ان پروگراموں میں شرکت کی، جو اس سے ایک سال قبل کی تعداد سے تین سو زائد رہی۔ گزشتہ برس تربیتی پروگراموں میں شرکت کرنے والے مردوں کی تعداد میں 3.7 فیصد اضافہ ہوا تاہم اس ضمن میں خواتین کی شرکت میں 2.9 فیصد کی کمی ہوئی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ جرمنی میں ہنر مند تارکین وطن اور مہاجرین لیبر مارکیٹ میں پایا جانے والا خلاء پر کر سکتے ہیں۔ اسی مقصد کی خاطر جرمن حکومت امیگریشن کے حوالے سے ایک ایسی قانون سازی پر کام کر رہی ہے، جس کے تحت خدمات اور صحت کے شعبے کے ساتھ ساتھ دیگر سیکٹرز میں بھی ملازمتوں کے خلاء کو پر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
ع ب / ع ح / خبر رساں ادارے