تارکین وطن سے متعلق یونانی قانون میں سختی کا فیصلہ
13 جنوری 2011ان اصلاحات کا مقصد سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستوں کی بہتر چھان بین کرنا ہے اور ساتھ ہی ان غیر قانونی تارکین وطن اور مہاجرین کی آمد کو روکنا بھی،جو ابھی تک بڑی تعداد میں یونان پہنچ رہے ہیں۔
ایتھنز میں قومی پارلیمان کی طرف سے ترک وطن سے متعلق ملکی قوانین میں ان ترامیم سے پہلے یونان پر اندرون اور بیرون ملک سے سخت تنقید بھی کی جا رہی تھی۔ اس کا سبب یونانی حکومت کی امیگریشن سے متعلق پالیسیاں تھیں۔
ان میں یہ منصوبہ بھی شامل تھا کہ یونان ترکی کے ساتھ اپنی صرف 12.5 کلومیٹر طویل بین الاقوامی سرحد پر اس لیے خار دار باڑ لگا دے گا کہ ترکی سے غیر قانونی تارکین وطن کے یونان میں داخلے کو روکا جا سکے۔
یونان میں ابھی تک رائج امیگریشن قوانین میں ان ترامیم کے بعد کئی بڑی تبدیلیاں رونما ہونے کی توقع ہے۔ مثلاﹰ اب تک وہاں سیاسی پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں کے معاملات ملکی پولیس کی علمداری میں ہوتے تھے۔
لیکن اب یہ ذمہ داری پناہ سے متعلق ایک نئے ملکی محکمے کو سونپ دی جائے گی۔ نئے قائم کیے جانے والے اس محکمے کے اہلکاروں کو ان قریب 47 ہزار غیر ملکیوں کی درخواستیں بھی نمٹانا ہوں گی، جو کئی سالوں سے یونان میں سیاسی پناہ کے خواہش مند ہیں مگر جو اپنی درخواستوں پر سرکاری اہلکاروں کے فیصلے کا ابھی تک انتظار کر رہے ہیں۔
ان قانونی ترامیم کے تحت اب ایسے غیر ملکیوں کو اپیل کا حق بھی حاصل ہوگا، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد کر دی جائیں گی۔ یونان کے شہریوں کے تحفظ کے وزیر Christos Papoutsis کے بقول ان قانونی ترامیم سے ایتھنز حکومت کو یہ اختیار بھی حاصل ہو جائے گا کہ غیر قانونی تارکین وطن کی اسکریننگ کا ایک نیا عمل شروع کیا جائے۔
اس اسکریننگ کے ذریعے غیر قانونی تارکین وطن اور غیر ملکی مہاجرین کو یا تو رضاکارانہ طور پر یونان سے واپسی پر آمادہ کیا جائے گا یا پھر انہیں ملک بدر بھی کیا جا سکے گا۔
ان ترامیم میں یہ بھی شامل ہے کہ مختلف شہروں میں سابقہ فوجی چھاؤنیوں کو غیر قانونی تارکین وطن کے حراستی مراکز میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ یونان میں غیر قانونی تارکین وطن کی موجودہ تعداد کا اندازہ ساڑھے تین لاکھ لگایا جاتا ہے۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: عاطف بلوچ