تباہی ٹلی نہیں: سندھ کو ایک اور سیلابی ریلےکا سامنا
23 اگست 2010سیلاب سے متاثرین کی حالات ابھی بھی معمول پر نہیں آسکے ہیں اور بہت سے افراد اپنا مال مویشی اور بچے کچے سامان کو بچانے میں مصروف ہیں۔ پاکستان میں ایک نئے سیلابی ریلے کا خطرہ ہے اور صوبہ سندھ اس سے مزید متاثر ہو سکتا ہے۔ حکام خطرات میں گھرے ہوئے علاقوں سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے میں مصروف ہیں۔ نقل مکانی کا عمل صوبے کے تین ضلعوں میں جاری ہے اور شھداد کوٹ کو بھی دریائے سندھ میں پانی کی بڑھتی ہوئی مقدار سے خطرہ ہے۔ یہ شہر دریائے سندھ سے50 کلومیٹر کے فاصلے پرہے۔
بہت سے ایسے افراد بھی ہیں، جو اس نئے خطرے کو نظر انداز کرتے ہوئے، علاقے خالی کرنے پر رضا مند نہیں ہیں۔ ان کو خطرہ ہے کہ اگر گھر بار خالی کر دیا گیا توسامان لوٹ لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ شہر کے ارد گرد کا علاقہ پانی میں گھر چکا ہے اور اب صرف کشتیوں کی مدد سے ہی وہاں سے نکلنا ممکن ہے۔ ساتھ ہی حکام کا کہنا ہے کہ شہر حیدرآباد کو اس ریلے سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
ہفتےکے روز جرمن وزارت خارجہ کے انسانی حقوق کی پالیسیوں اور انسانی امداد کے مندوب مارکس لوننگ نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ اپنے دورہ کے بعد لوننگ کا کہنا تھا کہ صورتحال نے انہیں حیران کر دیا ہے۔’’ ہم ان حالات میں پاکستان کے لئے بہت کچھ کر رہے ہیں لیکن زمینی حقائق دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو اس مصیبت سے نکالنے کے لئے یہ امداد کافی نہیں ہو گی‘‘
حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ اگلے دنوں کے دوران دریائے سندھ میں پانی کی سطح کم ہو جائے گی اور ساتھ ہی مون سون بارشوں کا سلسلہ بھی تھم جائے گا۔ اتوار کو بھی اسلام آباد اور قریبی پہاڑی علاقوں میں شدید بارش کا سلسلہ جاری تھا۔ یہ پانی بھی انجام کار دریائے سندھ میں ہی پہنچے گا تب ایک نچلے درجے کے سیلاب کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی نقصانات کا صحیح اندازہ لگانے میں بہت وقت درکار ہوگا۔
اقوام متحدہ کے مطابق سیلاب متاثرین میں سے اس وقت آٹھ ملین افراد ایسے ہیں، جنہیں فوری امداد کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے کئی علاقوں سے زمینی رابطہ ممکن نہیں ہے اور امدادی اشیاء بہت سست رفتاری سے مستحق افراد تک پہنچ رہی ہیں۔ پاکستانی وزیرخارجہ شاھ محمود قریشی کا کہنا ہےکہ اقوام متحدہ کی جانب سے سیلاب زدگان کے لئے امدادی رقم کی جو اپیل کی گئی تھی، پاکستان کواس وقت تک اس سے دوگنی امداد مل چکی ہے۔ شاھ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ اقتصادی بحران کے اس دور میں بھی یورپی یونین، امریکہ اور دیگر ممالک نے، جس انداز سے امداد کی ہے وہ اس پر بہت شکر گزار ہیں۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: عابد حسین