1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تباہی کے عرشے پر وائلن بجانے والے!

27 اگست 2022

اگر آپ خود احتسابی سے فرار چاہیں، غلطیوں کے جائزے کے بعد اصلاح کے کشٹ میں نہ پڑنا چاہیں تو آسان طریقہ اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے یہ کہہ کر احساس ندامت سے نکلنا ہے کہ جیسے اللہ کی مرضی۔ وسعت اللہ خان کا کالم۔

https://p.dw.com/p/4G8AF
News Blogger Wusat Ullah Khan
وسعت اللہ خان، کالم نگارتصویر: privat

یہی نہیں اس کے علاوہ آپ اللہ مالک ہے، اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے سب کچھ، وہی پالن ہار ہے،وغیرہ وغیرہ بھی کہہ سکتے ہیں۔

یہ بالکل یوں ہے کہ اونٹ کا زانو باندھے بغیر اسے اس امید پر اوپر والے کے بھروسے چھوڑ دیا جائے کہ جس نے اونٹ بنایا وہی حفاظت کرے گا اور فرار ہونے سے بھی روک لے گا۔

ہم دیکھتے رہتے ہیں کہ سامنے سے ریل آ رہی ہے مگر  تب تک پٹڑی پار کرتے رہتے ہیں جب تک کہ انجن دس گز دور نہ رہ جائے اور اگر کوئی اپنی بے وقوفی سے کٹ مرے تو پھر ایک آہ بھر کر کہتے ہیں، جیسی اللہ کی مرضی۔

سب جانتے ہیں کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان پندرہ ممالک میں ہوتا ہے جو مسلسل دریائی سیلابوں کے نشانے پر ہیں۔ سب فیصلہ سازوں کو علم ہے کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات سے متاثر ہونے والے دس چوٹی کے ممالک میں شامل ہے۔

سب متعلقہ اداروں کو پتہ ہے کہ طغیانی کی راہ میں سب سے مؤثر قدرتی بند جنگلات ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ پچھتر برس پہلے اس ملک کا ایک چوتھائی رقبہ جنگلات سے ڈھکا ہوا تھا۔ آج محض تین سے چار فیصد رقبہ جنگلاتی ہے۔ گویا جنگلی بڑھتے گئے، جنگلات کم ہوتے گئے اور ٹمبر مافیا اور انہیں اجازت نامے جاری کرنے والوں کے پیٹ کا فضلہ بنتے چلے گئے۔

جنگلات غائب ہونے کے سبب ڈیموں اور دریاؤں میں اوپر سے آنے والی  مٹی مسلسل جمع ہو رہی ہے۔ چناچنہ پاکستان کی پانی جمع کرنے کی صلاحیت پچھلے پچاس برس میں ایک چوتھائی کم ہو گئی ہے۔

اس وقت پاکستان کے پاس صرف تیس دن کی قومی ضروریات کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے جبکہ بھارت کے پاس ایک سو ستر دن اور مصر کے پاس سات سو دن کا استعمالی پانی محفوظ کرنے کی گنجائش ہے۔ یوں ہم اپنی غیر معمولی ذہانت کے سبب سال بہ سال خشک سالی کے بھی مزے لوٹتے ہیں اور سیلاب میں بھی بہتے ہیں۔

انیس سو پچاس سے آج تک یہ کثیر دریائی ملک اکیس بڑے سیلابوں کی مار برداشت کر چکا ہے۔ قدرتی تباہی سے وقت سے پہلے خبرداری کا جدید ڈھانچہ اور پیشگی احیتاطی انتظامات نہ ہونے کے سبب پاکستان کو سالانہ کم ازکم آٹھ سو ملین ڈالر کا معاشی نقصان ہو رہا ہے اور مون سون کے سیزن میں ہر سال کم ازکم ایک ملین لوگ براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔

ہم آئی ایم ایف کے سامنے ایک ارب ڈالر کے لیے تو ہر سال بچھ سکتے ہیں مگر اپنا نظام و انصرام ٹھیک کر کے اس سے سو گنا رقم بچانے کے ہرگز موڈ میں نہیں۔

انگریز دور میں ہر سال ممکنہ دریائی زد میں آنے والے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز مون سون  کے کیلنڈر (پندرہ جون) سے کم ازکم تیس دن قبل اپنے اپنے زیر انتظام علاقوں میں صحت، غذا، بچاؤ، امدادی منصوبوں اور ممکنہ متاثرین کی تفصیلات حکام بالا کو بھیجنے کے پابند تھے تاکہ ان کے تخمینے کے مطابق ہنگامی رقم مختص ہو سکے۔

آزادی کے بعد ہم دیگر ذمہ داریوں کی طرح اس انتظامی جھنجھٹ سے بھی آزاد ہو گئے۔ اب ضلعی انتظامیہ وزیر اعلی یا وزیر اعظم کے حکم کے بغیر ٹس سے مس نہیں ہوتی اور یہ حکم بھی تب ملتا ہے جب پانی امدادی ترسیل کے تمام ممکنہ راستوں کی ناکہ بندی کر چکا ہو۔

پھر جو اخبارات میں اور ٹی وی اسکرینوں پر مظلوموں کی تصاویر کی بھرمار ہوتی ہے، انہیں دکھا دکھا کے باقی دنیا، سمندر پار پاکستانیوں اور مخیر شہریوں سے اپنا اپنا انسانی فریضہ نبھانے کی درد مندانہ اپیل کی جاتی ہے۔

اگر زندہ کرپشن دیکھنا ہو تو  ثبوت کے لیے فائلیں جھانکنے کی ضرورت نہیں۔ کرپشن کسی بھی نئی یا پرانی سڑک یا پل پر دیکھی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں مالی سال کا دورانیہ یکم جولائی سے تیس جون تک ہوتا ہے۔ آبپاشی کے نظام کی فعالیت، آبی گزرگاہوں کی بھل صفائی، بندوں کی مضبوطی، سڑکوں کی تعمیر جیسے کاموں کے نام پر بجٹ میں اربوں روپے مختص ہوتے ہیں۔ متعلقہ محکموں میں ہزاروں چھوٹے بڑے افسر و کارکن بھی ہیں۔

لیکن بیشتر تعمیراتی بجٹ مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران فائلوں میں ڈکراتا رہتا ہے اور آخری تین ماہ میں اچانک جھرجھری لے کے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ کیونکہ بجٹ کا پیسہ خرچ نہ ہوا تو واپس لے لیا جائے گا۔ تب سڑکوں اور پلوں  کی تعمیر و مرمت، بندوں کی مضبوطی اور محکمہ آبپاشی کے منصوبوں کی تکیمل کے نام پر من پسند ٹھیکے داروں کے ذریعے  کام  دکھایا جاتا ہے۔ اس میں ساٹھ فیصد پیسہ تو آپس میں ہی بٹ بٹا جاتا ہے۔ جو باقی چالیس فیصد تعمیری و ترقیاتی منصوبے کی شکل میں ہما شما  کو زمین پر دکھائی دیتا ہے، وہ مکمل ہوتے ہی اپنی خامیوں اور تکنیکی گھپلوں کے ثبوتوں سمیت مون سون کی بارش اور سیلاب میں بہہ جاتا ہے۔

پھر یہ کہتے ہوئے ہاتھ جھاڑ لیے جاتے ہیں کہ اس تباہی کی مجرم نگوڑی موسمیاتی تبدیلی، معمول سے زیادہ بارشیں اور شدید سیلاب ہیں۔ یوں اگلے برس کے نئے ٹھیکوں اور بھروسے کے ٹھیکے داروں کا راستہ دوبارہ صاف ہو جاتا ہے۔

دو ہزار دس کے سیلابِ عظیم میں تیس فیصد پاکستان زیر آب آیا، دو کروڑ لوگ براہ راست متاثر ہوئے اور لگ بھگ اٹھارہ ہزار دیہات کو نقصان پہنچا۔ اتنی وسیع تباہی کی وجوہات پر غور کے دوران ایک بڑا سبب یہ بھی سامنے آیا کہ شہروں میں پانی کی قدرتی گزرگاہوں کا راستہ روک کے ان پر لینڈ مافیا اور سرکاری مافیا کی ملی بھگت سے عمارات تعمیر ہو گئیں۔

دیہی علاقوں میں دریا کے متروک پاٹ میں برسوں سے فصلیں کاشت ہوئیں، باغات لگ گئے، ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن گئیں اور پانی کا راستہ تنگ سے تنگ ہوتا چلا گیا۔ چنانچہ جب سیلاب آیا تو نکاسی کے راستے غائب پا کر پانی غصے سے پاگل ہو گیا اور ہر شے ساتھ گھسیٹتا ہوا لے گیا۔

تب  کہا گیا کہ آئندہ تعمیراتی قوانین پر سختی سے عمل ہو گا اور دریائی گزرگاہوں میں تجاوزات یا شہری نالوں پر ناجائز تعمیرات کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔

دو ہزار دس سے دو ہزار بائیس کے درمیان بارہ برس کا فاصلہ ہے۔ ہم جیسے مورکھ بھی سمجھ بیٹھے کہ بالآخر حکمران شاہی نے واقعی کوئی سبق سیکھ لیا۔ آج معلوم ہو رہا ہے کہ ہم نے نہیں دراصل پانی نے سبق ازبر کیا ہے۔ بارہ برس پہلے اس نے دو کروڑ لوگوں کو سبق پڑھایا۔ اس بار اس کی مار سہنے والوں کی تعداد تین کروڑ تک جا پہنچی ہے اور مسلسل بڑھ رہی ہے۔

شہروں میں اربن فلڈ گزشتہ کی نسبت زیادہ آ رہے ہیں۔ دریائی گزرگاہوں اور معاون نالوں کے راستے میں تجاوزات کم تو خیر کیا ہوتیں پہلے سے دوگنا ہو گئیں۔ چنانچہ  اب بارش اور دریا مل کے نوے فیصد پاکستان کی ٹھکائی کر رہے ہیں۔

مگر ہمارا یہ ورد آج بھی جاری ہے کہ اس سب کی مجرم غیر معمولی بارشیں اور موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔ یا اللہ یا رسول، ہمارے حاکم بے قصور۔

تباہی کا حجم یوں بھی دو چند ہو گیا کہ اس بار بھی بااثر لوگوں نے اپنی اراضی اور املاک بچانے کے لیے پانی کا رخ  کم نصیبوں کی جانب موڑ دیا۔ اب یہی لوگ بذریعہ میڈیا مگر مچھ کے آنسو بہانے میں بھی آگے آگے ہیں۔

میں سوچتا ہوں کہ جب طوفان نوح بھی انسانی نفسیات میں پیوست ہوس، لالچ اور خود کو دھوکہ دینے کی آلائش نہ دھو پایا  تو یہ چھوٹی موٹی تباہیاں ہمارا کیا بگاڑ لیں گی۔

ویسے بھی کچھ کرنے کا وقت شاید گزر چکا ہے اور ہم تباہی کے عرشے پر کھڑے وائلن بجا رہے ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔