تبت میں چین کے خلاف مزاحمت، 52 برس بیت گئے
10 مارچ 2011انہوں نے جمعرات کو اپنے خطاب میں کہا، ’میں 1960ء کی دہائی سے ہی یہ کہتا چلا آ رہا ہوں کہ تبتیوں کو ایک رہنما کی ضرورت ہے، جسے تبت کے عوام آزادی سے منتخب کر سکیں اور جسے میں اختیارات سونپ سکوں۔‘
اُدھر لندن میں قائم ’فری تبت‘ تنظیم کا کہنا ہے کہ دس مارچ کا دِن چین سے تبیتوں کی آزادی کی علامت ہے۔ اس تنظیم نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے، ’آج کے دِن تبت کے شہری اور دنیا بھر میں ان کے حامی سڑکوں پر نکلیں گے۔ وہ دنیا کو یہ یاد دلائیں گے کہ (ان کی سرزمین) پر ظالمانہ قبضہ برقرار ہے‘۔
امریکہ میں قائم گروپ ’اسٹوڈنٹس فار اے فری تبت‘ کا کہنا ہے کہ جمرات کو برلن، نیویارک، ٹوکیو، سڈنی، لندن، پیرس اور روم کے علاوہ فلپائن اور بھارت کے شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق نامعلوم افراد نے انٹرنیٹ پر مظاہروں کی کالز دی ہیں، جن میں لوگوں کو لہاسا کے مرکزی Barkhor اسکوائر پر جمع ہونے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔
خیال رہے کہ 2008ء میں تبت کے علاقے لاشہ میں دس مارچ کو ہونے والا ایک مظاہرہ خون ریز جھڑپوں میں تبدیل ہو گیا تھا۔ بیجنگ حکام کے مطابق اُس وقت وہاں اکیس افراد ہلاک ہو گئے تھے، تاہم جلا وطن تبتیوں نے دو سو افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ متعدد افراد کو چین کی پیرا ملٹری پولیس نے نشانہ بنایا تھا۔
چین نے ان مظاہروں کے بعد تبت میں غیر ملکیوں کا داخلہ بند کر دیا تھا اور اس کے بعد سے کم از کم دو مرتبہ ایسے اقدامات کیے جا چکے ہیں۔ اس مرتبہ بھی آٹھ مارچ سے ہی تبت میں غیر ملکیوں کے داخلے کو ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔
خیال رہے کہ تبت جانے کا ارادہ رکھنے والے غیر ملکی سیاحوں کو چین کے ویزے کے ساتھ ساتھ خصوصی اجازت نامہ بھی درکار ہوتا ہے۔ انہیں کسی ٹریول ایجنسی کے ساتھ رجسٹریشن کے لیے بھی کہا جاتا ہے۔ اس خطے میں غیر ملکی صحافیوں کا داخلہ بھی ممنوع ہے اور انہیں صرف حکومتی نگرانی میں ہی وہاں لے جایا جاتا ہے۔
چینی حکومت دلائی لامہ کو ’راہب کے بھیس میں بھیڑیا‘ قرار دیتی ہے، جو تبت کو چین سے علیٰحدہ کرنا چاہتا ہے۔ تاہم دلائی لامہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ تبت کی آزادی نہیں چاہتے بلکہ چین میں تبتیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سیاسی اور مذہبی خود مختاری کے خواہاں ہیں۔
چین نے 1951ء میں تبت کا انتظام سنبھالا تھا۔ دلائی لامہ 1959ء میں وہاں چین کے خلاف مزاحمت شروع ہونے پر بھارت فرار ہو گئے تھے۔
رپورٹ: ندیم گِل/ خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی