تحریک طالِبان پاکستان میں پھُوٹ
29 مئی 2014جس گروپ نے تحریک طالبان کو خیرباد کہا ہے، اِس کے سرکردہ لیڈروں کے تحریک طالبان کے سربراہ ملا فضل اُللہ سے اختلافات کی خبریں گزشتہ کچھ عرصے سے گردش کر رہی تھیں۔ تحریک طالبان کو چھوڑنے والے گروپ کا ایک لیڈر اعظم طارق محسود بتایا جاتا ہے اور وہ اور اُس کے ساتھی گزشتہ کچھ عرصے سے ایک آزاد پوزیشن اور سوچ کے ساتھ بقیہ لیڈران سے اختلاف رکھتے تھے۔ اعظم طارق اور اُس کے بقیہ ساتھیوں کے مطابق جنوبی وزیرستان کے طالبان کو ملا فصل اللہ کی پالیسیوں سے اختلاف اور اُس کی قیادت پر اعتراضات تھے۔ بعض ذرائع کے مطابق نئے گروپ نے اپنا نام تحریک طالبان جنوبی وزیرستان رکھا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ علیحدگی اختیار کرنے والا گروپ قبائلی پٹی جنوبی وزیرستان میں خاصا مضبوط خیال کیا جاتا ہے اور یہی علاقہ پاکستانی طالبان کا اساسی علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ مبصرین کے خیال میں اعظم طارق اور اُن کے ساتھی حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے حامی ہونے کی وجہ سے امن عمل میں تسلسل کے خواہاں تھے۔ ایسا بھی خیال کیا گیا ہے کہ اب اسلام آباد اور امریکی حکام اعظم طارق کے گروپ کے ساتھ مذاکراتی عمل کو آگے بڑھا کر تحریک طالبان پر کاری ضری لگا سکتے ہیں۔ تحریک طالبان کی مرکزی قیادت نے اعظم طارق کے بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان میں سن 2013 میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد سے قیادت کے مسئلے پر اختلافات شروع ہوئے تھے جو کسی طور پر ختم نہیں کیے جا سکے۔
کسی نامعلوم مقام سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے طالبان کمانڈر اعظم طارق محسود کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان میں ایک مجرمانہ کارروائیاں کرنے والا عنصر داخل ہو کر مرکزی کمان تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ نئے گروپ سے تعلق رکھنے والے طالبان لیڈر کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسی گروپ نے اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کو فروغ دینے کے ساتھ کچھ اور جرائم کا بھی ارتکاب کیا۔ اعظم طارق نے تحریک طالبان کی مرکزی قیادت پر الزام لگایا کہ وہ ایک غیر ملکی ایجنسی کے مفادات کو تحفظ دینے میں مصروف ہے۔ طالبان لیڈر نے غیر ملکی ایجنسی کا نام اور مفادات کی تفصیل بتانے سے گریز کیا۔ اعظم طارق نے خود کو نئے گروپ کا ترجمان قرار دیا۔
موجودہ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت نے گزشتہ برس سے پاکستانی طالبان سے مذاکراتی عمل شروع کرنے کی کوششیں کی ہیں لیکن ان میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ خیال کیا گیا ہے کہ اِن کوششوں کو حال ہی میں فوج کی جانب سے فضائی کارروائی سے بھی سخت نقصان پہنچا ہے۔ اِس فضائی کارروائی میں پچاس سے زائد طالبان عسکریت پسندوں کی ہلاکت کا بتایا گیا تھا۔ مذاکرات کے آغاز پر مارچ میں طالبان نے چالیس روزہ جنگی بندی کا ضرور اعلان کیا اپریل میں اس میں توسیع سے انکار کر دیا تھا۔