تحفظ پاکستان بِل، اپوزیشن کا سپریم کورٹ جانے کا ارادہ
8 اپریل 2014پاکستانی حکومت نے پیر کی شب تیسری کوشش میں بالآخر تحفظ پاکستان بل نامی اس بل کو ترامیم کے ساتھ منظور کرایا تھا۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے بطور احتجاج ایوان سے واک آؤٹ کیا تھا۔
اس متنازعہ بل کو دہشتگردی کے خلاف کی جانے والی اب تک کی سب سے سخت قانون سازی کہا جا رہا ہے۔ اس قانون کے تحت کسی بھی مشتبہ دہشت گرد کو 90 دن کے لیے حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ نئے قانون میں دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کے لیے تیزی سے سماعت کرنے والی خصوصی عدالتیں بھی قائم ہوں گی۔ خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف 15 دن میں سپریم کورٹ میں اپیل کی جا سکے گی۔
منگل کے روز پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کےراہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حکومت نے عجلت میں قانون سازی کرتے ہوئے بنیادی حقوق کا خیال نہیں رکھا: ’’مجرموں کو سزا ملنی چاہیے۔ ان کے خلاف ایکشن ہونا چاہیے لیکن کچھ تحفظات ہیں کہ یہ قانون سیاسی انتقام کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ میں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ اس کو تین سال کے عرصے تک محدود کر دیں تاکہ پاکستان کے دشمنوں کا صفایا کرنے کے بعد عام قانون آجائے۔‘‘
سابق وزیر داخلہ اور پیپلز پارٹی کے اہم راہنما سینیٹر رحمان ملک کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اب بھی اس بل پر اپوزیشن جماعتوں کے تحفطات دور کرے۔ انہوں نے کہا کہ دہشگردی کے خلاف مؤثر قانون سازی کی ضرورت تو ہے لیکن اس عمل کو خدشات سے پاک ہونا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا: ’’پی پی او جو آئین سے متصادم ہے اس میں بنیادی حقوق سلب کیے جارہے ہیں۔ ہم سپریم کورٹ میں اس کو چیلنج کرنے کا دیگر جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد فیصلہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایم کیو ایم نے اس پر آمادگی کا اظہار کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی نے آمادگی کا اظہار کیا ہے اور دیگر جماعتوں سے بھی رابطہ کیا جا رہا ہے۔‘‘
حکومتی عہدیدار تحفظ پاکستان بل کو موجودہ مخصوص حالات کے تحت ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ کا کہنا ہے کہ پاکستان مین دہشت گردی کے خلاف مؤثر قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کو تنقید کا سامنا تھا اور جب قانون سازی کر لی گئی ہے تو اس پر بھی کچھ جماعتیں سیاست چمکا رہی ہیں۔ مشاہد اللہ کا کہنا تھا: ’’آج جو لوگ بہت زیادہ اعتراض کر رہے ہیں اس پر انہوں نے ماضی میں کچھ نہیں کیا، وہ خاموش بیٹھے رہے اور دہشتگردی بڑھتی رہی۔ ہم نے ہر مسئلے پر آگے بڑھ کر ایک سیاسی عزم کے ساتھ اس کو حل کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ جو تحفظ پاکستان بل ہے یہ بھی اسی کی ایک کوشش ہے۔‘‘
اپوزیشن جماعتوں نے دھمکی دی ہے کہ وہ ایوان بالا سینیٹ میں اکثریت ہونے کی وجہ سے اس قانون کو وہاں سے منظور نہیں ہونے دیں گی۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس نئے بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گا تو عدالت قانون کی تشریح کا اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے تحفظ پاکستان بل کی چند شقوں کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔