تربیت یافتہ جاسوس ہوں، سنوڈن
28 مئی 2014انہوں نے یہ بات امریکی ٹیلی وژن این بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہی ہے جس کی جھلکیاں منگل کو نشر کی گئیں۔ امریکا سے فرار ہونے کے بعد وہاں کے ذرائع ابلاغ کے ساتھ یہ ان کا پہلا انٹرویو ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق این بی سی نے سنوڈن کا یہ انٹرویو گزشتہ ہفتے ریکارڈ کیا جو آج بدھ کو مکمل نشر کیا جائے گا۔ اس بات چیت میں انہوں نے انٹیلیجنس کے شعبے میں خود کو ناتجربہ کار قرار دیے جانے کے دعووں کو مسترد کر دیا۔
ان کے مطابق یہ کہنا درست نہیں کہ وہ محض ایک نچلے درجے کے کانٹریکٹر تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ درجہ بندی کے لحاظ سے ہر سطح پر کام کر چکے ہیں۔
سنوڈن جاسوسی کے پروگرام پرزم کا انکشاف کرنے پر امریکا کو مطلوب ہیں۔ اس پروگرام کے بارے میں معلومات ذرائع ابلاغ کو دینے کے بعد وہ ہانگ کانگ فرار ہو گئے تھے۔ وہاں سے وہ گزشتہ برس جون میں ماسکو پہنچے تاہم امریکا کی جانب سے شہریت کی منسوخی کی وجہ سے مزید سفر نہ کر سکے اور ماسکو ایئر پورٹ کے ٹرانزٹ زون میں ہی ٹھہرے رہے۔ اگست میں روس نے انہیں ایک سال کے لیے سیاسی پناہ دے دی تھی۔
این بی سی کے ساتھ بات چیت میں سنوڈن نے کہا: ’’میری تربیت ایک جاسوس کے طور پر ہوئی، اس لفظ (جاسوس) کے روایتی معنوں کے اعتبار سے، اور اس لحاظ سے میں نے بیرون ملکوں میں کام کیا، یہ ظاہر کرتے ہوئے جیسے میں کوئی اور کام کر رہا ہوں جو درحقیقت میں نہیں کر رہا تھا، اور یہاں تک کہ مجھے جعلی نام بھی دیے گئے۔‘‘
سنوڈن نے بتایا کہ انہوں نے پوشیدگی میں سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی اور نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے لیے ’تکنیکی ماہر‘ کے طور پر کام کیا اور ڈیفنس انٹیلیجنس ایجنسی میں ٹرینر بھی رہے۔
انہوں نے کہا: ’’میں لوگوں کے ساتھ کام نہیں کرتا تھا۔ میں ایجنٹ بھرتی نہیں کرتا تھا۔ میں یہ کرتا تھا کہ ایسا نظام بنا دیتا تھا جو امریکا کے لیے کام کرے۔ اور میں نے یہ کام ہر سطح پر کیا، نچلے درجے سے لے کر اعلیٰ سطح تک۔‘‘
سنوڈن نے مزید کہا: ’’لہٰذا جب وہ کہتے ہیں کہ میں ایک نچلے درجے کا سسٹمز ایڈمنسٹریٹر ہوں، کہ میں نہیں جانتا کہ میں کس چیز کے بارے میں بات کر رہا ہوں تو میں یہ کہوں گا کہ یہ باتیں گمراہ کُن ہیں۔‘‘