ترک ریفرنڈم: حکومتی نظام کی تبدیلی کے حامیوں کی سبقت
16 اپریل 2017سرکاری ٹی وی پر دکھائے جانے والے ریفرنڈم کے نتائج کے مطابق تب تک ترانوے فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے کے بعد صدارتی نظام کے حق میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد اکاون اعشاریہ سات فیصد تھی جب کہ پارلیمانی نظام کو قائم رکھنے کے حامی اڑتالیس فیصد سے زائد ووٹوں کے ساتھ کچھ پیچھے تھے۔
مغرب نے اپنا اصلی چہرہ دکھا دیا، ایردوآن
ریفرنڈم کے لیے ملک بھرمیں ایک لاکھ سڑسٹھ ہزار پولنگ سٹیشنز قائم کیے گئے تھے۔ ساڑھے پانچ کروڑ ووٹرز اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کے اہل تھے۔ اس ریفرینڈم کے لیے ووٹنگ کا عمل مقامی وقت کے مطابق شام پانچ بجے مکمل ہو گیا تھا۔ رپورٹوں کے مطابق ترکی کے شورش زدہ صوبے دیارباکر میں حکمران جماعت کو بھاری ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے سیاحوں میں مقبول شہروں ازمیر اور انتالیہ میں بھی حزب اختلاف کی جماعت سی ایچ پی کو برتری حاصل رہی۔
ترکی کے سب سے بڑے شہراستنبول میں پچانوے لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز ہیں۔ شہر کے مختلف حصوں میں دن بھر خوب گہما گہمی رہی۔ ریفرنڈم کے حامی اور مخا لفین دونوں ہی نے اپنے اپنے ووٹرز کو پولنگ سٹیشنوں تک لانے کے لیے خوب باگ دوڑ کی۔
اس ریفرنڈم میں حکمران جماعت ’’جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی‘‘ اور اس کی حلیف حزب اختلاف کی ایک جماعت نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی یا ایم ایچ پی کو اپنے حامیوں سے ’’ایوت‘‘ یعنی ہاں کی مہر کے حق میں تھے۔ ان کے مخالفین میں جدید ترکی کے بانی مصطفٰی کمال پاشا کی پارٹی سی ایچ پی اور کرد نواز ایچ ڈی پی شامل تھی۔ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی اور کرد نواز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو اپنے ووٹروں سے بیلٹ پیپر پر ’’ہائیر‘‘ یا ’ناں‘ کی مہر لگوانی تھی۔
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے ریفرنڈم میں اپنا ووٹ استنبول کے ایک پولنگ سٹیشن پر ڈالا۔ اس موقع پر ترک صدر کا کہنا تھا کہ انہیں عوام کے جمہوری شعور پر اعتماد ہے۔ سرکاری خبر رساں ادارے انادولو نیوز ایجنسی کے مطابق صدر کا کہنا تھا، ’’ریفرنڈم کا عمل کوئی عام ووٹنگ نہیں۔ یہ ریفرنڈم ترکی کے انتظامی ڈھانچے میں تبدیلی سے متعلق فیصلہ ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ ترک عوام تیز تر ترقی کا راستہ ہموار کرے گی۔ ہمیں جلد ترقی کی منازل طے کرنی ہیں۔‘‘
دوسری جانب سی ایچ پی کے سربراہ کمال کلیجد اوگلو نے انقرہ میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم آج ترکی کی قسمت کا فیصلہ کر رہے ہیں اور امید ہے کہ ایک اچھا نتیجہ سامنے آئے گا جس کے بعد ہم مل کر ترکی کے دیگر اہم مسائل پر توجہ دے سکیں گے۔‘‘
خیال رہے کہ اس آئینی ریفرنڈم کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس کی منظوری کے نتیجے میں صدر ایردوان کو بے پنا ہ اختیارات حاصل ہو جائیں گے اور ترکی کا پارلیمانی جمہوری نظام شخصی اقتدار کی نظر ہو جائے گا۔