مغرب نے اپنا اصلی چہرہ دکھا دیا، ایردوآن
13 مارچ 2017ہالینڈ اور جرمنی کے بعد اب ترکی اور ڈنمارک کے مابین بھی کشیدگی میں اضافہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ ڈنمارک کی حکومت نے ترک وزیراعظم کا طے شدہ دورہ منسوخ کر دیا ہے۔ وزیراعظم بن علی یلدرم نے یہ دورہ بیس مارچ کو کرنا تھا۔ ڈنمارک کے وزیراعظم لارس لوکے راسموسن کا کہنا تھا کہ ترکی اور ہالینڈ کے مابین جاری موجودہ کشیدہ صورتحال کے باعث اس طرح کے دورے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ترک ’بلیک میل کے باعث سرخ لکیر‘ کھینچنا پڑی، ڈچ وزیر اعظم
ڈنمارک حکام کے مطابق انہوں نے اپنے ترک ساتھیوں کو یہ دورہ ملتوی کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن اور ترک حکومت کے دیگر ارکان نے ہالینڈ پر فاشزم کے الزامات عائد کیے ہیں۔ قبل ازیں ہالینڈ نے ترک وزیر خارجہ کو ملک میں داخل ہونے اور ایک ریلی سے خطاب کرنے سے روک دیا تھا۔
جرمنی اور ہالینڈ میں پابندی کے باوجود ایک فرانسیسی شہر نے ترک وزیر خارجہ کو ایک ریلی سے خطاب کرنے کی اجازت دے دی۔ ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے فرانس میں منعقدہ اس ریلی میں شریک سینکڑوں ترک شہریوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اتوار کے روز روٹر ڈیم میں ایک ریلی میں شرکت کے لیے ان کے جہاز کو لینڈنگ کی اجازت نہ دینے پر ڈچ حکام کو ’مناسب جواب‘ دیا جائے گا۔
ترکی کے اعلیٰ حکام آئندہ صدارتی ریفرنڈم میں حمایت حاصل کرنے کے لیے یورپ کے مختلف ممالک کے دورے پر ہیں۔ ان دوروں کا مقصد ان یورپی ملکوں میں مقیم ترک شہریوں کی حمایت حاصل کرنا ہے۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن اس ریفرنڈم کے ذریعے ملک میں صدارتی نظام رائج کرنا چاہتے ہیں۔ ترک شہریوں کی ایک بڑی تعداد یورپی یونین کے کئی رکن ممالک میں آباد ہے جو ملکی انتخابات کے نتائج بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی لیے ایردوآن اور ان کے حامیوں کے لیے یورپ میں آباد ان شہریوں کی حمایت حاصل کرنا نہایت ضروری ہے۔
ہالینڈ میں ترک وزیر خارجہ کو آنے کی اجازت نہ ملنے کے بعد جرمنی میں موجود ترکی کی ایک خاتون وزیر فاطمہ بتول کایا کو بھی اس ڈچ شہر میں ریلی سے خطاب کرنے سے روک دیا گیا۔ ان اقدامات کے بعد ہالینڈ میں مقیم ایردوآن کے حمایتی ترک شہریوں اور پولیس کے مابین شدید تناؤ دیکھنے میں آیا۔
ترک شہریوں اور ملکی پولیس کے مابین ہونے والے تصادم کے بعد استنبول میں ڈچ سفارت خانے کے باہر بھی مظاہرہ کیا گیا جس دوران ایک شخص نے ہالینڈ کے سفارت خانے میں داخل ہو کر ڈچ پرچم اتار دیا۔ اس واقعے پر ہالینڈ کے وزیر خارجہ نے ترک حکام سے احتجاج بھی کیا۔
دوسری جانب ایردوآن نے ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود یورپ کے دورے پر جا کر اجتماعات سے خطاب کریں گے۔ اگر وہ ان اعلانات پر عمل پیرا بھی ہوئے تو یورپ اور ترکی کے مابین کشیدگی ایک نیا رخ اختیار کر سکتی ہے۔ ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ایردوآن کا کہنا تھا، ’’گزشتہ دو دنوں کے دوران یورپ نے اپنا اصلی چہرہ دکھا دیا ہے۔ جو ہم نے دیکھا وہ اسلامو فوبیا کی ایک واضح شکل ہے۔‘‘