1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک صدر ایردوآن اور سود، ٹِک ٹِک کرتا ٹائم بم

مقبول ملک آندریاز بیکر
17 مئی 2018

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے عالمی مالیاتی منڈیوں، بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں اور اپنے ہی ملک کے مرکزی بینک پر شدید تنقید کر کے سب کو حیران کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ غیر متوقع بیان بیازی محض ان کا ایک انتخابی حربہ ہے؟

https://p.dw.com/p/2xsVF
تصویر: Reuters/O. Orsal

صدر رجب طیب ایردوآن نے یہ تنقید کیوں کی؟ ماہرین یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ آیا وہ محض آئندہ الیکشن میں اپنی کامیابی کو یقینی بنانا چاہ رہے ہیں یا ترک زرعی شعبے کی حالت واقعی ایسی ہو گئی ہے کہ اس کے لیے سانس لینا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے؟ ترکی میں اگلے الیکشن سے قریب ایک ماہ قبل صدر ایردوآن اس وقت شدید دباؤ میں ہیں۔ اس کی وجہ محض ترکی کی اقتصادی حالت ہی نہیں ہے۔

جرمن کھلاڑیوں نے ترک صدر سے ملاقات کیوں کی؟ شدید تنقید

ترکی کے آئندہ صدر بھی ایردوآن ہی ہوں گے؟

رجب طیب ایردوآن اس بات پر فخر کر سکتے ہیں کہ گزشتہ برس ترک معیشت میں ترقی کی شرح متاثر کن حد تک 7.4 فیصد رہی۔ لیکن ساتھ ہی کئی ماہرین اقتصادیات اس شرح کو شبے کی نظر سے بھی دیکھتے ہیں کہ آیا یہی شرح واقعی ترک معیشت کی حقیقی حالت کی نشاندہی بھی کرتی ہے۔

ترکی میں اس وقت بے روزگاری کی شرح کافی زیادہ ہے، خاص طور پر نوجوانوں میں۔  جرمنی میں کونسٹانس کی یونیورسٹی برائے بین الاقوامی اقتصادی تعلقات کے پروفیسر ایردال یالسن کے مطابق اس اقتصادی ترقی کے ایک بڑے حصے کا تعلق ملک میں داخلی طلب اور رسد سے ہے۔ یعنی اس میں وہ بڑے بڑے تعمیراتی منصوبے بھی شامل ہیں، جو ریاست یا بڑے بڑے کاروباری ادارے چلا رہے ہیں لیکن ان سب منصوبوں کے لیے مالی وسائل قرضوں کے طور پر حاصل کیے گئے ہیں۔

Türkei Währung
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose

اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ترک کرنسی لیرا کی قدر میں مسلسل کمی ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسے ملک کے لیے اس لیے ایک بڑا مسئلہ ہے، جس کی مجموعی سالانہ درآمدات اس کی کل برآمدات سے کہیں زیادہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی میں افراط  زر کی شرح اس وقت 11 فیصد ہے، یعنی افراط زر کی پانچ فیصد کی اس زیادہ سے زیادہ شرح کے دوگنا سے بھی کہیں زیادہ، جس کی ترک مرکزی بینک مسلسل کوششیں کر رہا ہے۔

ترکی میں قبل از وقت انتخابات کا اعلان

ترکی:  ایک چوتھائی قابل طلباء امام خطیب اسکولوں میں جائیں گے

ترک مرکزی بینک کو اس افراط زر کو روکنے کے لیے شرح سود بڑھانا پڑی تاکہ ملکی کرنسی کی قدر میں مسلسل کمی کو روکا جا سکے۔ اس بارے میں پروفیسر ایردال یالسن کہتے ہیں، ’’ ترکی کو غیر ملکی سرمائے کی اشد ضرورت ہے تاکہ عام مصنوعات کے استعمال کی بنیاد پر اقتصادی ترقی کی موجودہ شرح کو قائم رکھا جا سکے۔ لیکن ترکی میں سرمایہ کاری کرنے والے غیر ملکی اداروں میں اس حوالے سے اعتماد کا فقدان ہے اور یہی بات ٹِک ٹِک کرتے کسی ٹائم بم سے کم نہیں، جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔‘‘

Symbolbild EU Türkei
تصویر: Getty Images/C. McGrath

’تمام برائیوں کی جڑ‘

ان حالات میں ترک مرکزی بینک جن شعبوں میں ہچکچاہٹ سے کام لے رہا ہے، ان میں سے سود کی مرکزی شرح میں اضافہ کوئی واحد پہلو نہیں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ صدر ایردوآن ملکی مالیاتی پالیسی کے غیر جانبدار نگران اور کرنسی کے آزاد محافط کے طور پر سینٹرل بینک پر اس لیے اپنا دباؤ قائم رکھے ہوئے ہیں کہ وہ مرکزی شرح سود کم کرے۔

نیتن یاہو تم ایک ’دہشت گرد‘ ہو، ایردوآن

ترک صدر کی طرف سے صدیوں پرانے حاجیہ صوفیہ میں قرآن کی تلاوت

رجب طیب ایردوآن نے حال ہی میں اپنی ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے سود کی اونچی شرح کو ’’تمام برائیوں کی جڑ‘‘ قرار دیا تھا۔ پھر انہوں نے چند روز قبل بلومبرگ ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں یہ بھی کہہ دیا کہ اگر وہ آئندہ صدارتی الیکشن جیت گئے، تو ملکی مرکزی بینک کو زیادہ بہتر طور پر کنٹرول کریں گے۔

اس طرح صدر ایردوآن ترک ووٹروں کے ایک حصے کی ہمدردیاں تو حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ بہت سے ترک کاروباری ادارے اور عام گھرانے کافی مقروض ہیں۔ لیکن اس طرح ایردوآن کی طرف سے بیرونی دنیا کو دیا جانے والا اشارہ بہت تباہ کن ہے اور اسی لیے ترک لیرا کی بین الاقوامی قدر و قیمت مزید کم ہو رہی ہے۔

ترک صدر روتی ہوئی بچی سے، ’کیا تم شہید ہونا چاہتی ہو؟‘

ترکی میں یوچیل آزاد، میرکل کا اظہار اطمینان

صدر ایردوآن کے اس موقف کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ اس طرح نہ صرف قرضوں کی واپسی کے حوالے سے ترکی کی پوزیشن کمزور ہو جائے گی بلکہ اس طرح ترکی سے سرمائے کی بیرون ملک منتقلی کا عمل بھی شروع ہو سکتا ہے، جو مزید تباہ کن ثابت ہو گا۔

 یہی وجہ ہے کہ ماہرین کے بقول ترک صدر ایردوآن کی بین الاقوامی مالیاتی منڈیوں، ریٹنگ ایجنسیوں اور ترک مرکزی بینک پر یہ تنقید انقرہ اور ترک معیشت کے لیے ایک ٹائم بم ہے، جو کسی بھی وقت پھٹ تو سکتا ہے لیکن جسے پھٹنے سے ہر ممکن کوششیں کر کے روکنا بھی انتہائی لازمی ہے۔

اس کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ترکی میں آئندہ صدارتی الیکشن کے نتائج جو بھی رہیں، ترکی کو اپنے ہاں مالیاتی اعتماد سازی کے لیے کافی کچھ کرنا ہو گا، اور غیر جانبدار مرکزی بینک پر دباؤ ڈالنے کے بجائے یہ کوشش بھی کرنا ہو گی کہ زیادہ سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ کار ترکی میں سرمایہ کاری کریں۔

اس کے لیے انقرہ حکومت کو یورپی یونین کے ساتھ اپنے وہ تعلقات بھی دوبارہ معمول پر لاتے ہوئے انہیں مزید مثبت شکل دینا ہو گی، جو کافی عرصے سے بہت کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔

اس کا ایک ثبوت یورپی کمیشن کی ترکی سے متعلق وہ سالانہ رپورٹ بھی ہے، جو اپریل میں جاری کی گئی تھی اور جس میں برسلز کی طرف سے کہا گیا تھا، ’’ترکی نے کئی ایسے بڑے بڑے اقدامات کیے ہیں، جن کی وجہ سے وہ یورپی یونین سے مزید دور چلا گیا ہے۔‘‘