ترک میڈیا پر کریک ڈاؤن ’انتہائی پریشان کن‘، چانسلر میرکل
2 نومبر 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے حوالے سے بتایا ہے کہ ترکی میں صحافیوں کے ساتھ کیا جانے والا سلوک باعث تشویش ہے۔ میرکل نے کہا، ’’میرے لیے اور میری حکومت کے لیے یہ بات بہت زیادہ پریشانی کا باعث ہے کہ ترکی میں آزادی صحافت اور آزادی رائے پر بار بار قدغن لگائی جا رہی ہے۔‘‘ میرکل کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب ترک حکام نے روزنامہ ’جمہوریت‘ کے درجن بھر صحافیوں اور افسران کو گرفتار کر لیا ہے۔
ایردوآن کے حماس سے قریبی رابطے، خفیہ جرمن دستاویز میں انکشاف
ایردوآن میرکل کو ناپسند بھی اور ضرورت بھی
میرکل کا دورہء ترکی: اتفاق بھی، اختلاف بھی
میرکل نے بدھ کے دن برلن میں سوئٹزرلینڈ کے وفاقی صدر کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ترکی میں میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد کی یہ گرفتاریاں ’وہاں جاری پرانی روایت کی ایک مایوس کن مثال‘ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یقینی طور پر یہ معاملہ انقرہ حکومت کے ساتھ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کے حوالے سے جاری مذاکراتی عمل پر بھی اثر انداز ہو گا۔
ترکی میں روزنامہ ’جمہوریت‘ کے صحافیوں کی گرفتاری کے بعد منگل کے دن انقرہ میں تعینات جرمن سفیر نے اس اخبار کے دفتر کا دورہ بھی کیا تھا۔ اس تناظر میں چانسلر میرکل نے کہا، ’’صحافیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم ان سے اظہار یک جہتی کرتے ہیں، جیسا کہ باقی دیگر ترک افراد کے ساتھ بھی، جو مشکل حالات میں آزادی رائے اور آزادی صحافت کے لیے فعال ہیں۔‘‘
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے صدر رجب طیب ایردوآن نے اپنے مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے۔ صحافیوں کی گرفتاری سے قبل ہی ویک اینڈ پر انقرہ حکومت نے دس ہزار سے زائد سرکاری ملازمین کو برطرف کر دیا تھا جبکہ پندرہ کرد نواز میڈیا اداروں کو بند کرنے کا حکم بھی جاری کر دیا گیا تھا۔
ادھر ’رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز‘ نے ترک صدر ایردوآن کو ’پریس فریڈم کا دشمن‘ قرار دے دیا ہے۔ اس غیر سرکاری ادارے کے مطابق ترک حکومت جولائی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک تقریباﹰ دو سو صحافیوں کو گرفتار جبکہ ایک سو بیس میڈیا اداروں کو بند کر چکی ہے۔
بدھ کے دن جاری کردہ اپنی ایک رپورٹ میں اس ادارے نے کہا کہ ایردوآن چاہتے ہیں کہ میڈیا ’ان کا فرمانبردار رہے اور ان کے گُن گائے‘۔ اس رپورٹ میں ایسے 35 رہنماؤں اور اداروں کی فہرست بھی جاری کی گئی ہے، جو صحافیوں کی اس تنظیم کے مطابق ’آزادی صحافت کے دشمن‘ ہیں۔