ترکی سے یونان: مزید چھ بچے سمندر کی لہروں کی نذر ہو گئے
27 نومبر 2015ترکی کی اناطولیہ نیوز ایجنسی کے مطابق جمعے کے روز کشتی ڈوبنے کا پہلا واقعہ اس وقت پیش آیا جب تیز ہوا اور بلند لہروں کے باعث تارکین وطن کی ایک کشتی الٹ گئی۔ یہ کشتی ترکی کے ساحلی شہر آیواجیک سے پناہ کے متلاشی پچپن شامی اور افغانی شہریوں کو لے کر یونانی جزیرے لیسبوس کے سفر پر روانہ ہوئی تھی۔
ترک ساحلی محافظوں کے مطابق اب تک اس حادثے میں ہلاک ہونے والے چار بچوں کی لاشیں سمندر سے نکالی جا چکی ہیں۔ چاروں بچوں کا تعلق افغانستان سے ہے۔
انقرہ سے موصولہ رپورٹوں کی مطابق حادثے کا شکار ہونے والی دوسری کشتی ترکی سے ایک اور یونانی جزیرے کوس کے سفر پر روانہ تھی لیکن شدید بارش اور طوفانی موسم کے باعث یہ کشتی ترکی کے شمال مشرق میں واقع شہر بودروم کے ساحلوں کے قریب ہی ڈوب گئی۔ رپورٹوں کے مطابق اس حادثے میں اب تک دو بچوں کے ڈوبنے کی اطلاعات ہیں۔
اب تک سینکڑوں تارکین وطن سمندری راستہ اختیار کرتے ہوئے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے ترکی سے یونان پہنچنے میں کوشش میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں قابل ذکر تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے۔ یورپ میں جاری مہاجرین کے حالیہ بحران کے دوران آنے والے زیادہ تر مہاجرین اسی راستے کے ذریعے یورپ پہنچے ہیں۔
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرین نے گزشتہ روز اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ حالیہ دنوں میں بحیرہ ایجیئن کے ذریعے یونان پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ اس کمی کا ایک سبب سردی میں اضافہ بتایا جاتا ہے۔
بلقان ریاستیں شام، عراق اور افغانستان کو چھوڑ کر باقی تمام ممالک سے آنے والے مہاجرین کو آگے جانے کی اجازت نہیں دے رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان، ایران اور دیگر ممالک سے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی آمد میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔
یورپ کا رخ کرنے والے مہاجرین کی اکثریت ترک ساحلوں سے یونانی جزیروں کا سفر اختیار کرتی ہے۔ یورپی ممالک کی کوشش ہے کہ ترکی ان تارکین وطن کو سمندری راستہ اختیار کرنے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ یورپی یونین اور ترکی کے درمیان مہاجرین کو یورپ کا رخ کرنے سے روکنے کے حوالے سے لائحہ عمل پر اصولی اتفاق طے پا چکا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ اتوار کے روز اس منصوبے کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔
منصوبے کے مطابق مہاجرین کو روکنے کے بدلے میں یورپی یونین کی جانب سے نہ صرف ترکی کو مالی معاونت فراہم کی جائے گی بلکہ ترک شہریوں کو ویزے کے بغیر یورپ کے سفر کی سہولت بھی دی جائے گی۔