ترکی ميں ناکام فوجی بغاوت کے دو برس مکمل
15 جولائی 2018
ترکی ميں صدر رجب طيب ايردوآن کا تختہ پلٹنے کے ليے ناکام فوجی بغاوت کو آج دو برس ہو گئے ہيں۔ اس موقع پر ايردوآن نے دارالحکومت انقرہ ميں ايک قرآن خوانی کی تقریب ميں شرکت کی، جس کے بعد ملک بھر ميں مختلف تقاريب منعقد ہوئيں۔ ترکی ميں مذہبی امور کے نگران علی ارباس نے ايک خصوصی دعائيہ تقريب ميں ناکام فوجی بغاوت کی کوششوں کے دوران ہلاک ہونے والے ڈھائی سو اور زخمی ہونے والے دو ہزار سے زائد افراد کے ليے دعا کی۔ انہوں نے کہا جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پيش کيا، وہ بيرونی قوتوں کے ہاتھوں ميں کھيلنے والے غداروں کے سامنے کھڑے ہوئے۔
ترک ميں پندرہ جولائی سن 2016 کے روز ملکی فوج کے چند دھڑوں نے ايردوآن کا تختہ الٹنے کے ليے ٹينکوں، جنگی طياروں اور ہيلی کاپٹروں کی مدد سے چڑھائی کر دی۔ نتيجتاً استنبول، انقرہ اور مرماريس ميں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ صدر ايردوآن اس وقت مرماريس ميں چھٹيوں پر تھے اور وہ حملوں ميں بس بال بال بچ نکلے۔ جنگی طياروں نے ملکی پارليمان کی عمارت سميت ديگر مقامات پر بمباری بھی کی۔ صدر رجب طيب ايردوآن نے اس ناکام بغاوت کا الزام امريکا ميں مقيم ترک مبلغ فتح اللہ گولن پر عائد کيا، جسے وہ مسترد کرتے آئے ہيں۔
اس ناکام بغاوت کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بيٹھنے والوں کے لواحقين کے ساتھ ايک عشائيے ميں شرکت کے دوران ايردوآن نے کہا کہ متاثرين کی قربانيوں کو کبھی بھلايا نہيں جائے گا۔ صدر نے کہا کہ مستقبل ميں ايسے واقعات سے بچنے کے ليے يہ لازمی ہے کہ بچوں کو اسکولوں ميں اس اہم تاريخ اور اس روز پيش آنے والے واقعات کے بارے ميں پڑھايا جائے۔
ترکی ميں اس ناکام فوجی بغاوت ميں ملوث ہونے کے شبے پر اب تک تقريباً پچھتر ہزار افراد کو گرفتار اور ايک لاکھ تيس ہزار سے زائد سرکاری ملازمين کو برطرف کيا جا چکا ہے۔ ان ميں عدليہ، پوليس، استغاثہ، فوج اور شعبہ تعليم سے منسلک افراد بھی شامل ہيں۔ ناقدين کا کہنا ہے کہ ان واقعات کو بہانہ بنا کر ايردوآن نے تمام مخالفين کو نشانہ بنايا ہے۔
ع س / ع ب، نيوز ايجنسياں