ترکی میں جمہوریت کے اتار چڑھاؤ کے سو سال
8 جنوری 2023سو سال قبل جمہوریہ ترکی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ تب سے ترکی کا نظام ون پارٹی سسٹم سے ہٹ کر کثیرالجماعتی بن چکا ہے۔ اس ملک کے سیاسی منظر نامے پر چند واقعات نے گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ 1960ء کی فوجی بغاوت، 70ء کی دہائی میں قریب دس سال تک جاری رہنے والے پرتشدد مظاہرے، جن کے بعد ایک اور فوجی بغاوت اور 90ء کی دہائی میں متعدد غیر مستحکم مخلوط حکومتیں اور پھر 2020ء میں ایک اسلام پسند حکمران کا اقتدار میں آنا۔ ان تمام چھوٹے بڑے دھچکوں کے دوران ترکی مغربی طرز کے جمہوری نظریات، مساوات، قانون کی بالا دستی اور سیکولرزم پر نہ صرف قائم رہا بلکہ اس ریاست نے انہی جدید نظریات پر چلتے ہوئے سو سال بھی گزار دیے۔ترکی کے جمہوری ادارے گزشتہ ایک صدی میں کتنے لچکدار اور مستحکم ہوئے ہیں؟
ایردوآن کا دور
رجب طیب ایردوآن کے دور میں ترکی نے واضح طور پر اپنا رخ مغرب سے مشرق کی طرف کر لیا اور اس دوران ترکی اسلامی اقدار کے ساتھ مزید جڑتا دکھائی دینے لگا۔ انقرہ نے عرب دنیا میں اپنے نئے دوست اور اتحادی بنا لیے۔ ترکی صومالیہ اور قطر سمیت بیرون ملک فوجی شمولیت کو مسلسل بڑھا رہا ہے۔ ان علاقوں میں ترکفوج کا خیر مقدم کیا گیا۔
تمام ترک باشندے ان حالات و واقعات سے خوش نہیں ہیں کیونکہ یہ سب کچھ آمریت کے سائے میں ہوا ہے۔ برلن میں قائم سینٹر فار اپلائیڈ ٹرکش اسٹڈیز (CATS) ترکی کے نئے سیاسی منظر نامے کے بارے میں منفی رائے رکھتا ہے۔ اس مرکز سے منسلک ایک ماہر سینم آدار کہتی ہیں، ''ترکی اس وقت آمرانہ طرز حکومت ہے۔ سن دو ہزار کے اواخر سے یہ ملک مستقل طور پر قانون کی حکمرانی اور طاقت اور اختیارات کی علیحدگی جیسے معاملات سے دور ہوتا چلا گیا۔‘‘
سینم آدار مزید کہتی ہیں، ''ملک کے مسابقتی کثیر الجماعتی انتخابات اور مغربی ادارہ جاتی ڈھانچے میں اس کے انضمام کے تقریباً سات دہائیوں پر محیط تجربے کو دیکھتے ہوئے اسے صرف اور صرف مایوس کن ہی کہا جا سکتا ہے۔‘‘
شامی مہاجرین ترکی میں ’سیاسی فٹ بال‘ کیسے بنے؟
اسلام ایک سیاسی قوت
ترک جمہوریہ کی بنیادی اقدار میں سے ایک سیکولرزم تھا، جو ریاست اور مذہب کو ایک دوسرے سے بالکل علیحدہ رکھنے کے فرانسیسی ماڈل پر مبنی ایک تصور تھا۔ اس جمہوریہ کے قیام کے ایک سال سے بھی کم عرصے بعد یعنی سن 1924 میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا۔ تب 'دیانت‘ نامی ڈائریکٹوریٹ برائے مذہبی امور کی بنیاد رکھی گئی، جس کا مقصد ریاست کو اسلام کے سیاسی اثر و رسوخ پر مزید کنٹرول دینا تھا۔
ترکی: مخالفین پر کنٹرول کے لیے نیا میڈیا قانون باعث تشویش
تاہم موجودہ صدر رجب طیب ایردوآن کی پالیسیوں اور طرز عمل کے بدولت 20 سال پہلے کے مقابلے میں آج کے ترکی میں مذہب کا بہت زیادہ سیاسی کردار نظر آرہا ہے۔ ترک علوم کی ماہر سینم آدار ساتھ ہی اس امر کی نشاندہی بھی کرتی ہیں کہ ترکی میں مذہب اور سیاست کے درمیان لکیر ہمیشہ بہت ہی باریک رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ''ایردوآن کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) کے گزشتہ 20 سالہ دور اقتدار نے سماجی زندگی میں مذہب کے عمل دخل کو بہت وسعت اور گہرائی دی ہے۔‘‘ سینم کے بقول، ''عوامی زندگی میں اسلام کی بتدریج توسیع کے واضح رجحان کو دیکھا جا سکتا ہے، خاص طور پر پچھلی دہائی کے دوران۔‘‘
ایردوآن کی شکست ممکن؟
ترک ووٹر 18 جون کو نئے ملکی صدر کا انتخاب کریں گے۔ عوامی رائے پر مبنی چند جائزوں کے مطابق اگر اپوزیشن کسی ایک امیدوار کے ساتھ یہ الیکشن لڑتی ہے تو ایردوآن ممکنہ طور پر ہار بھی سکتے ہیں کیونکہ ان کی پالیسیوں پر سوال اٹھانے والوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔
اس ضمن میں نام نہاد'ٹیبل آف سکس‘ نے، جو چھ اپوزیشن پارٹیوں پر مشتمل ایک مشترکہ سیاسی قوت ہے، اب تک اپنے ایک یا ایک سے زائد امیدواروں کے ناموں کا اعلان نہیں کیا۔
ترکی میں اس وقت عوام بڑے پیمانے پر اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کے ملک میں اب بھی جمہری ادارے موجود ہیں۔ تاہم وہ لوگ جو مستقبل میں ایک نئی حکومت دیکھنا چاہتے ہیں، ان کے لیے 2019 ء میں ایک امید کی کرن پیدا ہوئی تھی۔ تب بلدیاتی انتخابات میں، ترکی کے دو بڑے شہروں استنبول اور انقرہ میں اپوزیشن امیدواروں نے AKP کے امیدواروں کے خلاف کامیابی حاصل کی تھی۔ اس سے یہ ثابت ہوا تھا کہ ترکی میں اب بھی جمہوری ادارے کام کر رہے ہیں اور یہ کہ روس جیسی دیگر آمرانہ حکومتوں کے برعکس آئندہ انتخابات میں حکمران سیاسی طاقت کو شکست ہو سکتی ہے۔
تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جون کے انتخابات میں اپوزیشن کے جیتنے کے امکانات ہیں؟ سینم آدار کے مطابق اپوزیشن کے پاس ایک موقع ہے خود کو حکمران طبقے کے خلاف ایک قابل اعتماد اور طاقتور متبادل کے طور پر پیش کرنے کا۔ خاص طور پر ''انقرہ حکومت کے طرز عمل سے پیدا ہونے والے بحران کے دوران بڑھتے ہوئے سماجی غصے اور عوامی مایوسی کے پس منظر میں، کیونکہ ان عوامل کے ساتھ ساتھ معاشی بحران مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے اور خود ترک حکمران اتحاد میں ہم آہنگی بھی بدتر ہوتی جا رہی ہے۔‘‘
ایردوآن ہار گئے تو کیا ہوگا؟
اس وقت ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ آئندہ الیکشن کے نتیجے میں ترکی میں اقتدار میں کوئی تبدیلی رہنما ہوئی، تو ترک جمہوریہ کون سی سیاسی سمت اختیار کرے گی؟ حکمران پارٹی اے کے پی کو ملک میں چند شعبوں میں ہونے والی پیش رفت پر فخر ہے، مثال کے طور پر Bayraktar TB-2 ڈرونز پر۔ ترکی اپنے لڑاکے طیارے اور الیکٹرک کار سازی کی منصوبہ بندی پر بھی عمل پیرا ہے۔ اپوزیشن کی ممکنہ جیت اور اقتدار میں آنے کے بعد ان منصوبوں کا کیا ہو گا؟
ترک علوم کی ماہر سینم آدار کا کہنا ہے کہ ایک نئی حکومت نہ صرف ان منصوبوں کو برقرار رکھے گی بلکہ ان کے ساتھ زیادہ عملی اور جمہوری انداز میں آگے بڑھے گی۔
وہ کہتی ہیں، ''مقامی دفاعی صنعت اور عام طور پر تکنیکی جدت اور ترقی پر مبنی معیشت کی خواہشات ایک مختلف حکومت کے تحت بھی جاری رہیں گی تاہم ایک مختلف حکومت کے تحت ترکی کی صلاحیت کا زیادہ حقیقت پسندانہ اور سنجیدہ جائزہ بھی لیا جائے گا اور دفاعی صنعت اور خارجہ پالیسی کے مابین تعلقات ممکنہ طور پر بہتر، منظم اور جواب دہ انداز میں استوار ہو سکیں گے۔‘‘
ک م / م م (اُنویرین براک)