تعویز گنڈے اور اینٹی بائیوٹکس ساتھ ساتھ
18 اپریل 2011جرمنی کے ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ سے وابستہ دو سائنسدانوں Gabriele Alex اور Vibha Joshi نے مذہبی اور نسلی تنوع کے بارے میں ریسرچ کی ہے۔ تحقیق کے بعد دونوں ہی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دنیا کے مختلف روایتی معاشروں میں، جہاں بظاہر تہذیب و ثقافت کے تضادات نظر آتے ہیں وہاں بہت سے معاملات میں عملی طور پر تضادات سے زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے۔ مثلا بیماریوں کے علاج کے لئے اینٹی بائیوٹیکس کے ساتھ ساتھ دعا تعویز کا سہارا لینا۔ ان سائنسدانوں کی ایک تازہ مطالعاتی رپورٹ شائع ہوئی ہے، جس میں انہوں نے یہ بتایا ہے کہ بھارتی معاشرے میں علاج معالجے کے مروجہ طریقہ کار میں عیسیائیت کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں-
بھارت میں بیماریوں کے علاج کے لیے مغربی بائیو میڈیسن اور مقامی روایتی طریقہ علاج دونوں ہی کا رواج عام ہے۔ مریض درد سے نجات حاصل کرنے کے لیے جہاں Ayurveda تیل، ناک کی صفائی کے لیے پچکاری یا بڑی انتڑیوں کے نچلے حصے کو صاف کرنے کے لیے سیال پچکاری وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں، وہیں ہومیوپیتھک ادویات اور قدرتی اشیاء سے تیار کردہ مرہم یا لیپ وغیرہ سے علاج کا رواج بھی عام ہے۔ بھارت میں ماہرین طب اکثر Metaphysics یا مابعد طبعیات کے علم پر مشتمل طریقہ علاج کی سہولیات بھی فراہم کرتے ہیں۔ جرمن محقق اور ماہر بشریاتGabriele Alex کا ماننا ہے کہ ایک مریض ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے علاج کے لیے کسی سرجن سے رجوع کرتا ہے یا روحانی علاج کا سہارا لیتا ہے، اس امر کا دارومدار کئی چیزوں پر ہوتا ہے۔ اول اس کی ٹانگ ٹوٹنے کی قیاساً وجہ، اس کے علاوہ اس مریض کے گھر اور ہسپتال کے درمیان فاصلہ اور سب سے بڑھ کر مریض کا معاشرتی اور اقتصادی پس منظر۔ Gabriele کہتی ہیں "یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے مغربی معاشروں میں ہم چند مخصوص بیماریوں کا علاج پہلے گھر میں ہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سے رجوع کسی بڑی تکلیف یا سیریئس بیماری کی صورت میں کرتے ہیں"-
ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ سے منسلک دوسری ماہر بشریات ویبھا جوشی نے اس بارے میں تحقیق کی ہے کہ بھارتی باشندوں نے مختلف مذاہب میں روایتی اور جدید طریقہ علاج کو کتنی لچکداری سے اپنے روایتی طریقہ علاج میں شامل کیا ہے۔ انہوں نے بھارت کے شمال مشرقی دور افتادہ صوبے ناگا لینڈ کی ثقافت پر ریسرچ کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں لوگ علاج کے جو طریقہ کار استعمال کرتے ہیں اُن میں عیسائیت کے مختلف مذہبی عقائد اور روحانیت پرستی کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں-
جوشی نے اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب Christianity and Healing:the Angami Naga of northeast India میں مسیحی عقیدے اور ناگا لینڈ میں مختلف بیماریوں کے علاج کے مروجہ طریقہ کار کے مابین پائے جانے والے گہرے تعلق پر روشنی ڈالی ہے۔ مسیحیت کے غلبے والے اس علاقے کے مقامی لوگ دو طریقہ علاج پر یقین رکھتے ہیں۔ ایک قدیم روحانی طریقہ علاج جبکہ دوسرا خوابوں یا وجد کے عالم میں بیماری کی وجوہات اور اس بارے میں پیش گوئی کرنے والوں کے علاج پر۔ انیسویں صدی کے اواخر میں ناگا لینڈ میں کرسچن مشنریز آئے تھے اور انہوں نے تعلیم اور طبی سہولیات کے ذریعے مقامی لوگوں تک مسیحیت میں پائے جانے والے روحانی طریقہ علاج کے تصور کو پھیلایا۔ جوشی نے اپنی فیلڈ ریسرچ کے دوران ناگا لینڈ میں اکیسویں صدی میں بھی اسی طریقہ علاج کا رواج دیکھا ہے- ان کے بقول اب بھی انہوں نے متعدد کلینکس اور ہسپتالوں کے مرکزی دروازوں اور کمروں پر جہاں مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے، بائبل کی آیات ٹنگی دیکھی ہیں۔ اس کے علاوہ کلیساؤں میں صحت یابی کی دعاؤں کا رواج اور معجزاتی شفاء پر یقین، ناگا لینڈ کی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے-
بھارت کے شمال مشرقی صوبے ناگا لینڈ کی 85 فیصد آبادی بپتسمہ، کیتھولک یا مسیحیت کے کسی اور فرقے سے وابستہ ہے اور اپنا قدیم عقیدہ چھوڑ کر مسیحیت قبول کر چکی ہے۔ بھارتی حکومت نے ملک گیر سطح پر روایتی طبی علاج کو صحت کی پالیسی کا حصہ بنا دیا ہے۔ Ayurveda، یوگا، یونانی، سِدھا، ہومیوپیتھی اور قدرتی علاج حکومتی ہیلتھ کیئر، تربیتی پروگراموں اور نظام صحت کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہیں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: عدنان اسحاق