تنہا نابالغ مہاجرین کی ’سرپرستی کی دعوت‘ باعث مذمت کیوں؟
17 جنوری 2018کئی یورپی ممالک میں اس وقت ایک ایسی تحریک کی ترویج کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کے محرک انتہائی دائیں بازو کے نوجوان ہیں۔ اسے یورپی Identity Movement یا ’شناختی تحریک‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس تحریک کے حامی چاہتے ہیں کہ یورپی ممالک کی اپنی مغربی مسیحی پہچان برقرار رہے اور اسی لیے وہ اپنے اپنے ممالک میں بڑی تعداد میں غیر ملکی مہاجرین یا تارکین وطن کی آمد کے خلاف ہیں۔
پانچ ہزار سے زائد مہاجر بچوں کو زمين کھا گئی يا آسمان نگل گيا
’نابالغ‘ مہاجرين کی حقيقی عمروں کا تعين کيسے کيا جاتا ہے؟
جرمنی میں اس ’یورپی شناختی تحریک‘ کی شمالی جرمن سٹی اسٹیٹ ہیمبرگ میں قائم شاخ کی طرف سے ابھی حال ہی میں ایک اعلان میں اس کے ارکان کو یہ دعوت دی گئی کہ انہیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں تنہا اور کم عمر مہاجرین کے قانونی سرپرست بننے کی کوشش کرنا چاہیے۔
ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اس طرح یہ نوجوان جرمن ریاست کی طرف سے ایسے تارکین وطن کی سرپرستی کے معاوضے کے طور پر فی گھنٹہ 15.5 یورو سے لے کر 33.5 یورو یا 23.9 امریکی ڈالر سے لے کر 41 ڈالر تک کما بھی سکتے ہیں۔
جرمنی: جنسی زیادتی میں ملوث افغان مہاجر نابالغ نہیں
'مہاجر بچوں کی فیملی ری یونین کا عمل تیز کیا جائے‘
لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ جرمنی میں اکیلے آنے والے نابالغ مہاجرین کو مختلف سرکاری کارروائیوں کی تکمیل کے لیے قانونی طور پر اپنے لیے کسی نہ کسی سرپرست کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کام بہت سے انسان دوست مقامی جرمن رضاکار یا مختلف امدادی تنظیمیں بھی کرتی ہیں۔ تاہم ان کا واضح مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایسے تنہا نابالغ تارکین وطن کو کم سے کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ ان کی تعلیم کے بندوبست یا اسکول کی تبدیلی وغیرہ سمیت سارے دفتر کام آسانی سے مکمل ہو سکیں۔
اس کے برعکس ’شناختی تحریک‘ کے ارکان کی طرف سے ایسے مہاجر بچوں کی سرپرستی کی دعوت کا مقصد یہ ہے کہ ایک تو اس طرح ریاستی خزانے سے اپنے لیے معاوضے کے طور پر رقوم حاصل کی جا سکیں اور ساتھ ہی یہ زیادہ سے زیادہ کوششیں بھی کی جائیں کہ بعد میں جرمنی میں مقیم یہ کم عمر مہاجرین اپنے اہل خانہ کو جرمنی نہ بلا سکیں۔
اٹلی ميں منفرد منصوبہ، لاوارث مہاجر بچوں کے ليے ’سرپرست‘
سویڈن، افغان مہاجر بچوں نے بکریاں چرا کر وطن کی یاد تازہ کی
اپنے اس موقف کے حق میں اس تحریک نے دلیل یہ دی ہے کہ جرمنی میں گزشتہ برسوں کے دوران لاکھوں مہاجرین، خاص کر ہزارہا نابالغ تارکین وطن کی آمد کے نتیجے میں ’قانونی سرپرستوں کا ایک پورا کاروبار‘ وجود میں آ چکا ہے، جس کی حوصلہ شکنی کی جانا چاہیے۔ اس صورت حال کے لیے اس تحریک نے ’اسائلم انڈسٹری‘ یا ’پناہ کے حصول کی صنعت‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے۔
ان حالات میں ہیمبرگ میں جرمن داخلی انٹیلیجنس کی صوبائی شاخ کے اہلکاروں نے ’شناختی تحریک‘ کی اپیل کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ ان انٹیلیجنس حکام کا کہنا ہے کہ یہ تحریک اپنی سوچ میں غیر آئینی موقف اور مردم بیزار رویوں کی حامل ہے اور اس کے اس اعلان کو ’سماجی خدمت کی کوئی بہت بڑی کوشش‘ کوئی بھی نہیں سمجھے گا۔
2017 میں کتنے پاکستانی شہریوں کو جرمنی میں پناہ ملی؟
ہمیں واپس پاکستان جانا ہے، یونان میں محصور پاکستانی مہاجرین
دوسری طرف ’شناختی تحریک‘ کے ترجمان ڈانیئل فِس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی تحریک نے نابالغ مہاجرین کی قانونی سرپرستی کے کئی ماہرین سے مشورے کیے ہیں اور یہ تحریک اپنے ارکان کے لیے ایسے خصوصی تربیتی پروگراموں کا اہمتام بھی کرے گی، جن کے بعد وہ اچھے ’سرپرست‘ ثابت ہو سکیں۔ فِس نے یہ بھی کہا کہ ان کی تحریک کے کوئی ’خفیہ منفی ارادے‘ نہیں ہیں۔
اس بارے میں ہیمبرگ شہر کی انتظامیہ کے تعلقات عامہ کے شعبے اور مہاجرین کے سماجی انضمام کے محکمے کی طرف سے ڈوئچے ویلے کو بتایا گیا کہ ’شناختی تحریک‘ کا یہ اقدام صرف سستی شہرت کی ایک کوشش ہے اور فی الوقت ہیمبرگ میں کم عمر مہاجرین کے لیے نئے قانونی سرپرستوں کی کوئی ضرورت بھی نہیں۔
تارکین وطن کی غیر قانونی ملازمتیں، یورپی کمیشن کا سختی کا مطالبہ
اپنے اس موقف کے حق میں ہیمبرگ میں صوبائی انتطامیہ کے عہدیداروں نے دلیل یہ دی کہ 2015 میں اس جرمن شہر میں 2,572 تنہا نابالغ مہاجرین مقیم تھے لیکن گزشتہ برس کے آخر تک ان کی عداد بہت کم ہو کر صرف 517 رہ گئی تھی۔ ساتھ ہی ان حکام کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ کسی اکیلے نابالغ مہاجر کے سرپرست کے انتخاب کے لیے کسی بھی خواہش مند درخواست دہندہ کا چناؤ بڑے دھیان سے اور تفصیلی اسکریننگ کے بعد ہی کیا جاتا ہے۔
ہیمبرگ میں بچوں کے تحفظ کی غیر سرکاری فلاحی تنظیم Kinderschutzbund کےرالف سلیُوٹر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ محض خواہ مخواہ کا خوف پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے، جس کا نتیجہ جرمن حکام کی طرف سے مذمت کی صورت میں ایک ایسا ردعمل تھا، جس کی یہ تحریک قطعی خواہش مند نہیں تھی۔‘‘