سویڈن، افغان مہاجر بچوں نے بکریاں چرا کر وطن کی یاد تازہ کی
3 اگست 2017حنيف محمدی افغانستان کے ايک ديہی علاقے ميں بکرياں چرايا کرتا تھا کہ ايک دن اسی کے سامنے طالبان نے اس کے والدين کو قتل کرتے ہوئے اسے اپنی جان پچانے کے ليے فرار ہونے پر مجبور کر ديا۔ سترہ سالہ يہ نوجوان اب سويڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم ميں پناہ ليے ہوئے ہے۔ اسے گھر کی ياد تو بہت آتی ہے ليکن ايک چيز اسے گھر کا سا احساس دلاتی ہے، بکرياں چرانا۔ دوڑنے والے جوتے پہنے محمدی اپنا فون ہاتھ ميں ليے ايک فارم پر بکريوں کے ريوڑ کے پيچھے پيچھے پھرتا رہتا ہے۔
حنيف محمدی پچھلے قريب ڈيڑھ سال سے اسٹاک ہوم ميں رہائش پذير ہے اور اب تک اپنی سياسی پناہ کی درخواست پر کارروائی کا منتظر ہے۔ اس کا تعلق افغانستان کے صوبہ ہلمند سے ہے جسے افغان طالبان کا گڑھ تصور کيا جاتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ طالبان کے ہاتھوں اس کے والدين کے قتل کے بعد اپنے ايک انکل کی مدد سے وہ اپنے آبائی علاقے سے فرار ہوا اور اسٹاک ہوم تک پہنچا۔ اس کے بقول والدين کے بعد وہ خود کو کافی تنہا محسوس کرنے لگا تھا۔ خبر رساں ادارے اے ايف پی کو انٹرويو ديتے ہوئے محمدی کی آنکھوں ميں آنسو آ گئے اور اس نے بتايا، ’’پچھلے سال مجھے ايک ٹيلی فون کال موصول ہوئی جس ميں مجھے پتا لگا کہ ميرے انکل کو بھی قتل کر ديا گيا ہے۔‘‘
لنڈنگو کے کھلے آسمان تلے آج محمدی اس تشدد سے بہت دور ہے۔ جب کبھی بھی اسے اسکول سے وقت ملتا ہے، وہ بکريوں کے ريوڑ سے جا ملتا ہے۔ وہ کہتا ہے، ’’لنڈنگو ميں بہت سی بکرياں اور بھيڑيں ہيں۔ اسی ليے ميں يہاں آيا ہوں۔ اور يہ وجہ بھی ہے کہ ميں کچھ کام کاج کر کے مقامی زبان سيکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
ہنرک پونٹن ’گيٹ ٹو گيدر‘ نامی کميونٹی کے سربراہ ہيں۔ رضاکاروں اور پناہ کے متلاشی افراد کی مدد سے يہ کميونٹی سويڈن ميں لوگوں کے درميان نئے رابطے قائم کرانے ميں مدد فراہم کرتی ہے اور ساتھ ہی ناپيد ہو جانے کے خطرے سے دوچار بکريوں کی ايک نسل کے بچاؤ کے ليے بھی کام کرتی ہے۔ پونٹن نے اے ايف پی کو بتايا، ’’يہ لڑکے ہمارے معاشرے ميں آئے اور اب لوگوں کے درميان نئے رابطے بن رہے ہيں۔‘‘ پونٹن کا کہنا ہے کہ افغانستان سے آنے والے مہاجرين بکرياں چرانے کے کام ميں اچھے ہيں کيونکہ وہ يہ کام پہلے کر چکے ہيں۔‘‘ اس سويڈش شہری کا مزيد کہنا ہے کہ يہ پناہ گزين ان کے ملک کو خوبصورت رکھنے ميں مدد فراہم کر رہے ہيں۔‘‘
سياسی پناہ کے ليے سويڈن پہنچنے والے نابالغ تارکين وطن ميں افغان سر فہرست ہيں۔ سويڈش مائیگريشن اتھارٹی کے گزشتہ برس کے اعداد و شمار کے مطابق زيادہ تر نابالغ افغان شہريوں کی پناہ کی درخواستيں منظور ہو چکی ہيں، گو کہ اس عمل ميں ايک سال تک کا عرصہ لگ جاتا ہے۔
ايجنسی کے مطابق پچھلے سال نومبر تک سولہ سو نابالغ افغان مہاجرين نے پناہ کی درخواستيں جمع کرا رکھی تھيں، جن ميں سے صرف پانچ سو کو مسترد کيا گيا۔ افغانستان ميں سلامتی کی دن بدن بگرتی ہوئی صورتحال کے باوجود اسٹاک ہوم حکام نے واضح طور پر يہ کہا ہے کہ ہر افغان شہری کو پناہ کا حقدار نہيں سمجھا جائے گا۔