عمران خان کی سزا کی معطلی پر عدالتی فیصلہ پھر التوا کا شکار
25 اگست 2023اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں آج عمران خان کے وکلا کا پر اسرار طور پر لفٹ میں پھنس جانا، الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز کا اچانک بیمار پڑجانا اور سماعت کا فیصلے کے بغیر ملتوی ہوجانے کے بعد عمران خان کے حامی اور ملکی نظام انصاف کے بعض ناقدین کے خیال میں کچھ طاقتیں عمران خان کو سبق سکھانا چاہتی ہیں۔
بعض سیاسی مبصرین اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم کی سزا کی معطلی کے مسئلے کو دانستہ طور پر پیچیدہ بنایا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں جب توشہ خانہ کے مقدمے میں عمران خان کی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز، جنہیں آج اپنے دلائل مکمل کرنے تھے، عدالت میں موجود نہیں تھے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ وہ ڈی ہائیڈریشن یا جسم میں پانی کی کمی کا شکار ہو گئے ہیں۔
اس لیے ناسازی طبیعت کی بنا پر وہ عدالت بھی پیش نہیں ہو سکیں گے جبکہ دوسری طرف عدالت کے احاطے میں اس وقت ڈرامائی صورتحال پیدا ہو گئی جب عمران خان کے وکلاء کی ٹیم بشمول سردار لطیف کھوسہ ایک لفٹ میں 25 منٹ سے زیادہ دیر پھنسے رہے، یہاں تک کہ عدالت کا وقت تقریباﹰ ختم ہو گیا۔
اسی دوران عدالت نے اس مقدمے کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی، جس سے کئی حلقوں میں یہ تاثر جا رہا ہے کہ کچھ طاقتیں عمران خان کو کسی بھی صورت وہ ریلیف بھی نہیں دینا چاہتی، جو وہ قانون اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے لے سکتے ہیں۔
سزا کی معطلی پیچیدہ کیوں؟
بعض قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر کسی ملزم کو پانچ سال یا اس سے کم کی سزا ہوتی ہے، تو وہ عام طور پر جلد ہی معطل کر دی جاتی ہے اور اپیل کی سماعت چلتی رہتی ہے۔ ایک وکیل اور جوڈیشل کونسل آف پاکستان کے رکن راہب بلیدی کا کہنا ہے کہ آج اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے اس سماعت کا التوا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہماری عدالتوں پر شدید دباؤ ہے اور یہ کہ سزا کی معطلی کو بلا وجہ پیچیدہ بنایا جارہا ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' عمران خان پاکستان کے شہری ہیں اور ایک سیاست دان ہیں، ان کے نظریات سے اختلاف رکھنے والے بھی اس بات کو مانیں گے کہ یہ ان کا قانونی اور آئینی حق ہے کہ ان کی سزا معطل کی جائے۔‘‘
معاملہ کسی اور کے ہاتھ میں؟
پاکستان میں عدالتوں پر غیر مرئی قوتوں کا دباؤ کوئی نئی بات نہیں۔ سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کے حوالے سے عدالت پر دباؤ تھا جب کہ نوازشریف کی سزا کے حوالے سے بھی یہ تاثر ہے کہ عدالتیں کسی بیرونی دباؤ کے زیر اثر کام کر رہی تھیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی بھی اس حوالے سے تقریر ریکارڈ پر ہے۔ راہب بلیدی کے مطابق عمران خان کو یہ قانونی ریلیف نہ دے کر ایک غلط مثال قائم کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ''اس سے یہ تاثر جائے گا کہ ہماری عدالتیں شدید دباؤ میں ہیں اور وہ اس حوالے سے فیصلہ کر نہیں پا رہی۔ خدشہ یہ بھی ہے کہ یہ تاثر بھی ابھرے گا کہ عمران خان کا معاملہ کسی اور کے ہاتھ میں ہے، جو سابق وزیراعظم کو سبق سکھانا چاہتے ہیں اور ان کو جیل میں ہی رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
ایک سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں یہ دکھائی نہیں دیتا کہ عمران خان کو قانونی محاذ پر کسی بھی طرح کا کوئی ریلیف ملے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عمران خان کا معاملہ طاقتور حلقوں کے ہاتھ میں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی کہ عمران خان کو کسی بھی طرح کی قانونی ریلیف ملے اور آنے والے وقتوں میں یہ نظر نہیں آتا کہ ان کی جیل سے یا سزاؤں سے جان چھوٹے گی اور ان کے خلاف بدستور مقدمات بھی چلتے رہیں گے۔‘‘
ڈاکٹر توصیف احمد خان کے مطابق عمران خان کے ساتھ وہی فارمولا اپنایا جا رہا ہے جس کا اطلاق کراچی میں ایم کیو ایم لندن پر کیا گیا تھا۔ ''کراچی میں ایم کیو ایم لندن کے کئی ٹکڑے کر کے الطاف حسین کو غیر موثر کر دیا گیا تھا، گو کہ وہ اب بھی عوام میں مقبول ہیں لیکن ایم کیو ایم کے سارے دھڑوں کو اب اسٹیبلشمنٹ کنٹرول کرتی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''اب لگ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جائے گا۔ اسے دھڑوں میں تقسیم کر کے سارے دھڑوں کواسٹیبلشمنٹ کنٹرول کرے گی اور عمران خان کو غیر موثر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔‘‘
عدالتی فیصلے طاقتور حلقوں کے زیر اثر؟
سیاسی امور ہی کے ایک اور تجزیہ کار ڈاکٹر فیض اللہ جان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اہم عدالتی فیصلوں کے پیچھے ہمیشہ جی ایچ کیو کا کردار ہوتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان میں بھٹو یا نواز شریف کے فیصلے ہوں یا نظریہ ضرورت اور آمروں کو آئین پر شب خون مارنے کی اجازت کا معاملہ ہو۔ عدالتوں کے کئی فیصلے طاقتور حلقوں کی منشا کے مطابق ہوتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر فیض اللہ جان کے مطابق عدالتوں میں تقسیم کے باوجود اگر عمران خان کو ریلیف نہیں مل رہا تو اس میں انہی قوتوں کا کردار ہے، جنہوں نے پی ٹی آئی کو بنایا تھا۔
تاخیر کی وجہ قانونی نکات؟
تاہم کچھ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ اس تاخیر اور التوا کے پیچھے قانونی نکات بھی ہو سکتے ہیں۔ اس ضمن مین ایڈووکیٹ ماریہ فاروق کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ اگر کوئی غیر معمولی معاملہ نہ ہو تو تین سال سے زیادہ سزا میں عموماﹰ سزا معطل ہوجاتی ہے، ان کے بقول کم سزا کا مطلب ہے کہ جرائم کی نوعیت بہت زیادہ سنگین نہیں ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' کوڈ آف کریمنل پروسیجر کی سیکشن چار سو چھبیس کے تحت سزا کو معطل کیا جا سکتا ہے لیکن کیونکہ یہ معاملہ حساس ہے، تو ممکن ہے کہ عدالت سزا کو معطل کرنے سے پہلے یا ضمانت سے پہلے دونوں فریقین کو سننا چاہتی ہو۔‘‘
ماریہ فاروق کے مطابق کیونکہ اس سزا کے فیصلے میں کئی بے قاعدگیاں ہوئی ہیں، لہذا ضمانت دینے یا سزا کی معطلی میں مذید تاخیر غیر معمولی ہوگی۔ ''ہم امید کرتے ہیں کہ عدالت اس معاملے میں کسی بھی دباؤ کو خاطر میں نہیں لائے گی اور آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کرے گی۔