ایران: ’خوف پھیلانے‘ کے لیے پھانسیوں میں اضافہ
16 اپریل 2023ناروے میں قائم ایران ہیومن رائٹس (IHR) اور پیرس میں قائم ٹوگیدر اگینسٹ دی ڈیتھ پینلٹی (ECPM) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران میں 2015 ء کے بعد سے کم از کم 582 افراد کو پھانسی دی گئی جبکہ 2021 ء میں یعنی صرف ایک سال میں پھانسی کی تعداد 333 تھی۔ ان گروپوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں ملک گیر سطح پر ہونے والے مظاہروں نے اس ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔
پچھلے سال ستمبر میں ملک گیر مظاہروں کا سلسلہ شروع ایک 22 سالہ نسلی کرد خاتون مہسا امینی کی موت سے شروع ہوا تھا، جسے خواتین کے لباس کے سخت قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں ایران کی اخلاقی پولیس نے گرفتار کیا اور وہ بعد میں انہی کی زیر حراست دم توڑ گئی تھی۔
ایران میں موت کی سزائیں ’ریاستی منظوری سے ہلاکتیں،‘ اقوام متحدہ
حکام نے مظاہرین کے خلاف سخت کریک ڈاؤن سے ان پُر تشدد مظاہروں کا جواب دیا اور مظاہروں کی شروعات میں ہی چار افراد کو احتجاج سے متعلق مقدمات میں پھانسی دے دی۔ ان پھانسیوں نے بین الاقوامی سطح پر ایران میں انسانی حقوق کی پامالی پر کڑی تنقید اور شور بپا کر دیا تھا۔
ناروے میں قائم ایران ہیومن رائٹس IHR کے ڈائریکٹر محمود امیری مقدم نے کہا کہ احتجاج سے متعلق پھانسیوں کو رکوانے کے لیے سخت بین الاقوامی رد عمل کے بعدایران میں عام شہریوں کو ڈرانے کے لیے دیگر الزامات کے تحت پھانسیاں دے کر ان پر دباؤ بڑھایا گیا۔ انہوں نے کہا،''مظاہرین کے خلاف سزائے موت پر سامنے آنے والے بین الاقوامی ردعمل نے اسلامی جمہوریہ کے لیے ان پھانسیوں کا سلسلہ آگے بڑھانے میں مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''لوگوں میں خوف پھیلانے کے لیے، حکام نے غیر سیاسی الزامات کے تحت بھی پھانسی کی کارروائیوں کو تیز کر دیا ہے۔ یہ اسلامی جمہوریہ کی پھانسی کی مشین کے کم قیمت متاثرین ہیں۔‘‘ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مظاہروں سے متعلق الزامات کے تحت چار افراد کو پھانسی دیے جانے کے بعد مزید ایک سو مظاہرین کو موت کی سزا سنائے جانے یا ایسے الزامات کا سامنا ہے جس کی سزا کے طور پر انہیں پھانسی دی جا سکتی ہے۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (UNODC) اور اس کے عطیہ دہندگان کی طرف سے اس ''ڈرامائی اضافے‘‘ پر ردعمل کا فقدان دیکھنے میں آ رہا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بنیادی طور پر پورے ملک میں دی جانے والی سزائے موت کا 30 فیصد سنی مسلم بلوچ اقلیت کے ارکان پر مشتمل ہے۔ جب کہ بلوچ اقلیت ایران کی آبادی کا صرف دو سے چھ فیصد بنتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نسلی اقلیتی کردوں اور عربوں کی سزائے موت کی تعداد بھی غیر متناسب نظر آئی، خاص طور پر منشیات کے جرائم کے حوالے سے۔
مزید برآں یہ کہ سزائے موت ایک منظم امتیازی سلوک کا حصہ ہے اور ایران کی نسلی اقلیتوں کو وسیع جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ک م/ ش ر (اے ایف پی)