جی سیون سمٹ کے پہلے روز روسی یوکرینی جنگ مرکزی موضوع
26 جون 2022
جرمن چانسلر اولاف شولس نے سمٹ کے آغاز سے پہلے امریکی صدر بائیڈن کا خیر مقدم ایلماؤ کے مشہور قلعے میں کیا۔ جرمنی 2015ء کے بعد پہلی مرتبہ جی سیون کے سالانہ سربراہی اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔ دوہزار پندرہ میں جرمنی کی سربراہی میں جی سیون سمٹ کے انعقاد سے ایک سال قبل روس نے کریمیا کے یوکرینی علاقے کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔
جی سیون اجلاس کے پہلے دن جرمن چانسلر اولاف شولس اور امریکی صدر جو بائیڈن کینیڈا، فرانس، اٹلی، جاپان اور برطانیہ کے رہنماؤں کے ساتھ روس پر دباؤ اور یوکرین کی حمایت میں اضافے کی تجاویز پر بات چیت کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں خوراک اور تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے اور ہوش ربا مہنگائی جیسے موضوعات پر بحث بھی سمٹ کے ایجنڈے میں شامل ہے۔
یوکرین پر روسی حملے سے پیدا ہونے والے عالمی بحران پر جی سیون وزرائے خارجہ کا اجلاس
دیگر ممالک کی شمولیت
دنیا کے چند دیگر جمہوری ممالک جیسے کہ ارجنٹائن، بھارت، انڈونیشیا، سینیگال اور جنوبی افریقہ کو بھی جی سیون اجلاس کی چند مخصوص نشستوں میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔ یوکرینی صدو وولودیمیر زیلنسکی ایک ویڈیو لنک کے ذریعے سمٹ کے شرکاء سے خطاب کریں گے۔
دوطرفہ ملاقاتیں
اس سمٹ کے باقاعدہ آغاز سے قبل اتوار ہی کے روز جرمن چانسلر اور امریکی صدر نے آپس میں بھی ایک ملاقات کی۔ اس موقع پر امریکی صدر جو بائیڈن نے اولاف شولس کی وفاقی جرمن چانسلر کے طور پر سیاسی کاوشوں کی تعریف کی۔ دونوں رہنماؤں نے پریس کے ساتھ ایک مختصر ملاقات بھی کی۔ اس موقع پر صدر بائیڈن نے کہا کہ جرمنی واشنگٹن کے سب سے اہم اتحادیوں میں سے ایک ہے۔ جو بائیڈن کا مزید کہنا تھا کہ جی سیون ممالک اور نیٹو اتحاد کو روس کے یوکرین پر فوجی حملے کا سامنا کرنے کے لیے متحد رہنا چاہیے۔
جی سیون ممالک کے لیڈروں کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے جیسے اہم موضوع پر بھی مذاکرات کرنا ہیں۔ جرمنی ضرر رساں گیسوں کے اخراج کو ممکنہ حد تک کم کرنے کے لیے عملی اہداف طے کرنے کے مقصد سے ایک 'کلائمیٹ کلب‘ کی تشکیل پر زور دے رہا ہے۔
یورپی کونسل کے صدر شارل میشل نے جی سیون سربراہی اجلاس کی مناسبت سے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ یورپی یونین جرمنی کی جانب سے 'کلائمیٹ کلب‘ کی تجویز کا خیر مقدم کرتی ہے، جس میں توانائی کے ذرائع کو متنوع بنانےاور قابل تجدید توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
جی ٹوئنٹی میں روس کی رکنیت کا معاملہ، چین کی حمایت
غذائی تحفظ کا بحران
یورپی یونین کی کونسل کے صدر شارل میشل نے غذائی تحفظ کے بحران سے نمٹنے کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔ اس ضمن میں انہوں نے جزوی طور پر یوکرینی غذائی مصنوعات کو عالمی منڈیوں میں پہنچانے اور یورپی یونین کے ان شراکت داروں کی حمایت کر کے، جو خوراک کی قلت سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، اس بحران سے نمٹنے کے بنیادی اصولوں کی بات کی۔ برلن نے اس سلسلے میں بات چیت کرنے کے لیے جمعے کے روز ایک عالمی کانفرنس کی میزبانی بھی کی تھی۔
چین دوست ہے، حریف ہے، یا دونوں؟
روسی سونے کی درآمد پر پابندی
جی سیون کے چار رکن ممالک نے روسی سونے کی درآمد پر پابندی کا اعلان کر دیا ہے۔ اتوار کے روز سربراہی اجلاس کے شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے ایک بیان میں ان ممالک کی طرف سے کہا گیا کہ روس پر پابندیوں کے اقتصادی اثرات کو شدید تر بنانے کے لیے روسی سونے کی نئی درآمدات پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس فیصلے میں امریکہ، برطانیہ، جاپان اور کینیڈا شامل ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے ایک بیان میں کہا کہ یہ مشترکہ کارروائی روسی امراء کے طبقے کو براہ راست نشانہ بنائے گی اور اس سے پوٹن کی 'جنگی مشینری‘ پر بھی ضرب لگے گی۔
دریں اثناء واشنگٹن کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اس فیصلے کا باضابطہ اعلان آئندہ منگل کو جی سیون گروپ کی ایک مشترکہ کارروائی کے طور پر کیا جائے گا۔
روسی تیل کی برآمدات
یورپی یونین کی کونسل کے صدر شارل میشل نے روسی تیل کی برآمدات کی قیمت کے حوالے سے ایک بالائی حد مقرر کرنے کی امریکی تجویز پر مزید تبادلہ خیال کرنے کا عندیہ دیا۔ جی سیون سمٹ میں شارل مشیل نے کہا، ''ہم اس امریکی تجویز کی مزید تفصیلات میں جانا چاہتے ہیں۔‘‘ اس کا مقصد اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ یہ یورپی یونین کے لیے نقصان دہ ثابت نہ ہو۔
یورپی کونسل کے صدر کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کے تمام 27 رکن ممالک اس کی حمایت کریں گے۔ شارل مشیل نے اس امر پر زور دیا کہ ایسی تجویز کے ممکنہ ضمنی اثرات اور اس کے فوری مضمرات بھی واضح ہونا چاہییں۔ ان کے بقول اس امر کو بالکل واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکی مجوزہ میکینزم روس پر اثر انداز ہو گا اور یہ بھی کہ یہ یورپی یونین کو درپیش مسائل میں مزید اضافے کا سبب نہیں بنے گا۔ انہوں نے اس بارے میں جی سیون میں کسی معاہدے تک پہنچنے میں احتیاط سے کام لینے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
ک م/ م م (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)