تیونس: آمریت سے نجات کے تین سال
14 جنوری 2014تیونس کے ایک بتیس سالہ اعلیٰ تعلیم یافتہ شہری سہیل الداؤدی کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ دَس سال سے بے روزگار ہے اور یہ کہ اُس کی طرح تیونس میں اور بھی بہت سے شہری روزگار سے محروم اور بے یقینی کا شکار ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ’انقلاب کا اصل مقصد یہ تھا کہ ملکی وسائل سے محض چند ایک لوگوں کو ہی فائدہ نہ پہنچے تاہم یہ مقصد پورا نہیں ہو سکا ہے‘۔
تیونس کی گیارہ ملین کی مجموعی آبادی میں سے تقریباً سات لاکھ افراد بے روزگار ہیں، جن میں سے چار لاکھ کے پاس یونیورسٹی کی ڈگریاں ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لیکن بے روزگار شہریوں کی ایک غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ سالم الراعی کے خیال میں یہ ایک طرح کا ٹائم بم ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے پروگرام منظور تو ہوئے لیکن اُنہیں عملی شکل نہں دی گئی‘۔
تاہم تیونس کے شہریوں کو ایک اور چیز کا بھی انتظار ہے اور وہ ہے ملکی آئین۔ وعدہ یہ کیا گیا تھا کہ بن علی کا تختہ الٹے جانے کے تین سال پورے ہونے کے موقع پر آئین کی منظوری عمل میں آ جائے گی۔ جیولری کا کاروبار کرنے والے ساٹھ سالہ طارق صنعاء کے خیال میں ’موجودہ حکمران طبقہ جمہوریت کو لوٹ کا مال سمجھ رہا ہے اور اس نظام کو ذاتی منفعت اور ذاتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کر رہا ہے‘۔ اُنہیں امید ہے کہ آج کل تیونس کے بیس تا تیس سال کے آزاد فضا میں سانس لینے والے نوجوان ہی انقلاب کو آگے بڑھائیں گے:’’ہمیں اپنی سوچ میں انقلاب لانے کی ضرورت ہے۔‘‘
حقوقِ نسواں کی علمبردار امل غرانی کے خیال میں ’تیونس کے معاشرے کو نئی آزادیوں کو اچھی طرح سے برتنا سیکھنا ہو گا اور یہ بات ججوں اور اساتذہ پر بھی اُتنی ہی صادق آتی ہے، جتنی کہ صحافیوں یا پھر فنکاروں پر‘۔
تین سال پہلے کے انقلاب کا ایک مثبت نتیجہ یہ ہے کہ اب سرکاری پراپیگنڈے اور سنسر کی جگہ پریس کی آزادی کا دور دورہ ہے۔ آج کل تیونس میں چالیس سے زیادہ ریڈیو اسٹیشن جبکہ اتنے ہی اخبارات ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ جب سے اسلامی جماعت النہضۃ برسرِ اقتدار آئی، تب سے حکومت کی طرف سے بار بار میڈیا اور صحافیوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش بھی دیکھنے میں آئی۔
اظہارِ رائے کی آزادی کی علمبردار ایک غیر سرکاری تنظیم کے بشیر عواردہ کے مطابق آمر حکمران بن علی کے دور کے پرانے طریقے واپس آتے نظر آتے ہیں اور ’مقتدر طبقوں سے قربت رکھنے والے افراد کو سرکاری میڈیا میں سرکردہ عہدے دیے جا رہے ہیں اور بغیر لائسنس پروگرام نشر کرنے والے نئے نشریاتی ادارے وجود میں آ رہے ہیں‘۔
ذرائع ابلاغ کا مسئلہ یہ ہے کہ اشتہارات کی گنجائش کم ہونے کی وجہ سے اُن کی اقتصادی حالت بہت خراب ہے، بہت سے ریڈیو اور ٹی وی چینلز خسارے میں چل رہے ہیں اور اُن کا انحصار کاروباری کمیونٹی کی طرف سے فراہم کردہ مالی وسائل پر ہے۔ ایسے میں یہ چینل بھی بیروزگاری جیسے مشکل موضوعات کا احاطہ کرنے اور اُن کے بارے میں پروگرام نشر کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ لوگ میڈیا سے ایسے پروگراموں کی امید کر رہے ہیں، جن سے پتہ چلے کہ روزگار کی فراہمی کے لیے مختص کردہ وسائل کن خفیہ ہاتھوں کو منتقل ہو رہے ہیں۔