1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیونس میں انتخابات، مکمل جمہوریت قریب تر

امجد علی26 اکتوبر 2014

تیونس میں 2011ء میں مطلق العنان حکمران زین العابدین بن علی کی معزولی کے بعد سے آج دوسری بار منعقدہ آزادانہ انتخابات میں اسلام پسندوں کی النھضۃ پارٹی اور سیکولر جماعت ندائے تیونس کو سب سے زیادہ ووٹ ملنے کا امکان ہے۔

https://p.dw.com/p/1DcLb
تصویر: Reuters/Anis Mili

اس طرح اس شمالی افریقی ملک میں ’عرب اسپرنگ‘ نامی انقلابی تحریک کے چار سال بعد مکمل جمہوریت کی منزل بہت قریب آتی دکھائی دیتی ہے۔ آمر حکمران زین العابدین بن علی کے فرار ہو کر سعودی عرب چلے جانے کے بعد تیونس میں پہلے آزادانہ انتخابات 2011ء میں ہوئے تھے۔ تب معاشرے اور سیاست میں اسلام کے کردار کے موضوع کا غلبہ تھا تاہم آج کے انتخابات پر نئی ملازمتوں، اقتصادی امکانات اور مسلمان عسکریت پسندوں کے ساتھ تنازعے جیسے موضوعات زیادہ چھائے ہوئے ہیں۔

توقع کی جار ہی ہے کہ اعتدال پسند اسلامی جماعت النھضۃ اور اُس کی حریف سیکولر جماعت ندائے تیونس کو سب سے زیادہ نشستیں حاصل ہوں گی۔ تاہم انتہائی قدامت پسند سلفی تحریک سے لے کر سوشلسٹوں تک اور بھی بہت سی جماعتیں ان انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ تیونس میں بالآخر ایک مخلوط حکومت تشکیل پائے گی۔ 217 ارکان پر مشتمل پارلیمان ملک کے نئے وزیر اعظم کا انتخاب کرے گی۔

تیونس کے عوام ان انتخابات کے نتیجے میں ملک میں آمرانہ دور کے خاتمے کے چار سال بعد مکمل جمہوریت کے قیام کی توقع کر رہے ہیں
تیونس کے عوام ان انتخابات کے نتیجے میں ملک میں آمرانہ دور کے خاتمے کے چار سال بعد مکمل جمہوریت کے قیام کی توقع کر رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

دارالحکومت تیونس کے ایک مضافاتی علاقے میں ووٹ ڈالنے والوں کی قطار میں کھڑے ایک 57 سالہ شہری واحد زمیلی نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا:’’جب مَیں دیگر ملکوں میں لوگوں کو آزادانہ ووٹ ڈالتے ہوئے دیکھتا تھا تو مجھے ہر بار بُرا محسوس ہوتا تھا کہ ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔ اب ہمیں بھی ایسا کرنے کا موقع اور آزادی ملی ہے اور مجھے امید ہے کہ ہمیں مکمل جمہوریت اور آزادی ملے گی۔‘‘

2011ء میں منعقدہ پہلے انتخابات میں النھضۃ نے سب سے زیادہ نشستیں جیت کر ایک مخلوط حکومت تشکیل دی تھی تاہم پھر اپنے طرزِ حکمرانی کے خلاف اعتراضات سے جنم لینے والے سیاسی بحران اور دو سیکولر رہنماؤں کے قتل کے بعد النھضۃ کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور ایک ڈِیل کے تحت ایک عبوری سربراہِ حکومت قبول کرنا پڑا۔

النھضۃ کو اقتصادی شعبے میں بد انتظامی اور کٹر اسلام پسندوں کی جانب نرم طرزِ عمل کی بناء پر بھی ہدفِ تنقید بنایا گیا تھا تاہم اس بار اس جماعت کا کہنا ہے کہ اُس نے انقلاب کے بعد کے ابتدائی برسوں میں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے۔

تیونس کے طول و عرض میں پولنگ اسٹیشنوں کے باہر اسی طرح رائے دہندگان کی قطاریں دکھائی دیتی رہیں
تیونس کے طول و عرض میں پولنگ اسٹیشنوں کے باہر اسی طرح رائے دہندگان کی قطاریں دکھائی دیتی رہیںتصویر: Reuters/Zoubeir Souissi

تاہم ندائے تیونس، جس میں بن علی دورِ حکومت کے بھی کچھ سابقہ ارکان شامل ہیں، خود کو جدید ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ایسی جماعت سمجھتی ہے، جو اسلام پسندوں کے ابتر دورِ حکومت کے بعد معیشت اور سلامتی سے متعلق چیلنجوں سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔

جنوبی تیونس میں ایک ووٹر محمد علی عیاد نے روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف اور صرف النھضۃ کو قابلِ اعتبار سمجھتا ہے:’’مجھے دیگر جماعتوں پر کوئی اعتبار نہیں ہے۔ یہ سب بن علی کے دور کی ہیں۔ انقلاب کے بعد گزشتہ تین برسوں کے دوران النھضۃ ہی تھی ، جو مسلسل کام کرتی رہی۔‘‘

چار سال پہلے تیونس ہی سے ’عرب اسپرنگ‘ نامی انقلابی تحریک کا آغاز ہوا تھا، جس نے خطّے کے کئی دیگر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ تیونس وہ واحد ملک ہے، جہاں اس انقلابی تحریک کے نتیجے میں قدرے مستحکم اور جمہوری روایات دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ اس سال کے آغاز سے ملک میں اتفاقِ رائے سے نیا آئین آ چکا ہے جبکہ 23 نومبر کو وہاں صدارتی انتخابات بھی منعقد ہونے والے ہیں۔