1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جاپان: سماجی ویب سائٹس اور خود کشی کا رجحان

15 نومبر 2017

جاپان میں اندوہناک انداز میں نو نوجوانوں کے سر قلم کرنے کے واقعے کے بعد سماجی ویب سائٹس کے استعمال پر ایک مرتبہ پھر بحث شروع ہو گئی ہے۔ مشتبہ قاتل نے خود کشی  سے متعلق خیالات ٹویٹ کیے تھے۔

https://p.dw.com/p/2nexd
تصویر: picture-alliance/PYMCA/F. Finn

رپورٹس کے مطابق مشتبہ قاتل تاکاہیرو شیرائشی نے 15 سے 26 سال کی درمیانی عمر کے ان مقتولین کو سماجی ویب سائٹس کے ذریعے اپنے جال میں پھنسایا تھا۔ شیرائشی کو ٹوئیٹر کِلر کا نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس واقعے کے بعد ٹوکیو حکومت ملک میں انٹرنیٹ پر خود کشی سے متعلق کسی بھی قسم کا مواد جاری کرنے کے حوالے سے ضوابط سخت کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔

Tokio Mann zündet sich selbst an
تصویر: picture alliance/AP Photo

چند ماہرین کا خیال ہے کہ جاپانی معاشرے میں خود کشی اور ذہنی تناؤ کو انتہائی برا سمجھا جاتا ہے اور عوام سماجی ویب سائٹس کو اپنے جذبات کے اظہار کے ایک بہترین ذریعے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔

گزشتہ ماہ ٹوکیو کے ایک مضافاتی علاقے سے ان افراد کی لاشیں ملنے کے بعد ٹوئیٹر نے خود کشی کی ترغیب کے موضوع پر کی جانے والی ٹوئیٹس کے حوالے سے نئے ضوابط متعارف کرائے ہیں، جن میں صارفین سے کہا گیا ہے کہ وہ خود کشی یا خود کو کسی قسم کے نقصان پہنچانے سے متعلق ٹوئیٹس کو نہ تو فروغ دیں اور نہ ہی ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ تاہم ٹوئیٹر نے خود اپنی جان لینے کی خواہش کے اظہار کو نہ تو روکا اور نہ ہی پابندی عائد کی۔

جاپان میں خود کشی کی شرح میں ریکارڈ اضافہ

نو افراد کا بھیانک قتل اور جاپانی معاشرہ

ترقی یافتہ جی سیون ممالک میں خود کشی کے اعتبار سے جاپان سر فہرست ہے۔ اس ملک میں ہر سال بیس ہزار افراد اپنی جان لیتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ حکام نے اگر سوشل میڈیا پر اس موضوع پر بات کرنے کے حوالے سے زیادہ سخت قوانین وضع کیے تو اس طرح خود کشی کے نظریات کے حامی افراد معاشرے میں اور بھی تنہائی کا شکار ہو جائیں گے۔