جاپان میں فوکوشیما سانحے کا سوگ
11 مارچ 2023اس سال جاپان میں فوکوشیماکی تباہی کا سبب بننے والے مہلک سونامی کا سوگ جاپانی قوم ایک ایسے وقت میں منا رہی ہے جب یوکرین کی جنگ کے سبب دنیا بھر میں توانائی کا بحران شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں جوہری توانائی پر انحصار کے لیے خود جاپان میں عوامی حمایت بڑھ رہی ہے۔
سوگوار تقاریب کا انعقاد
جاپان میں مقامی وقت کے مطابق دو بج کر چھیالیس منٹ اور بین الاقوامی وقت کے مطابق پانچ بج کر چھیالیس منٹ پر فوکوشیما سانحے کے سوگ میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ 2011ء میں عین اسی وقت ریکٹر اسکیل پر نو کی شدت کے زلزلے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سونامی لہروں نے شمال مشرقی جاپان کو تباہ کر دیا تھا۔ ریکارڈ شدہ تاریخ کا میں اس واقعے کو چوتھا طاقتور ترین زلزلہ قرار دیا جاتا ہے۔
آج ہفتہ 11 مارچ کو ٹی وی فوٹیج میں سونامی میں اپنے پیاروں کو کھو دینے والے لوگوں کو پھول چڑھاتے، دعائیں مانگتے اور تعظیم سے جھکتے ہوئے دیکھا گیا۔ جاپان کا ایک شدید متاثر ہونے والا شہر کیسینوما پورے کا پورا زمین بوس ہو گیا تھا اور اس ناگہانی آفت کے بعد وہاں سے قریب ایک لاکھ 65 ہزار شہری اپنا گھر بار چھوڑ کر نکل گئے تھے۔ بعد ازاں اس علاقے کے جوہری پلانٹس کے آس پاس کے علاقوں کو تابکاری کے اثرات سے پاک کرنے اور رہائشی علاقوں کو محفوظ قرار دیا گیا تھا تاہم اس علاقے کے بہت سے رہائشیوں نے واپس نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔
توانائی کا شدید ترین بحران
جاپان کو کئی دہائیوں میں توانائی کے شدید ترین بحران کا سامنا ہے، حکومت اپنی جوہری صنعت کی بحالی کو تیز کرنا چاہتی ہے۔ وزیر اعظم فومیو کیشیدا نے جاپان کے نیوکلیئر سیفٹی واچ ڈاگ کی طرف سے منظور شدہ سات ری ایکٹرز کو دوبارہ کام شروع کرنے اور قوم سے نئے حفاظتی میکینزم کے ساتھ ''اگلی نسل کے‘‘ ری ایکٹرز کی تعمیر پر غور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
جاپان کے مشہور اخبارات کے حالیہ رائے عامہ کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت 2011ء کے بعد پہلی بار ری ایکٹرز کو دوبارہ شروع کرنے کی حمایت کر رہی ہے۔
وزیر اعظم کیشیدا نے فوکوشیمامیموریل سروس میں اپنے ایک خطاب میں کہا، ''حکومت فوکوشیما ڈائیچی پلانٹ کو محفوظ اور مستقل طور پر ختم کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھے گی اور یہ بحالی کے لیے ایک اہم عمل ہے۔‘‘
جاپانی وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا، ''یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم تباہی سے بچنے والے ملک کی تعمیر کے لیے کوششوں کو فروغ دیں۔‘‘
جوہری توانائی کے خلاف مہم چلانے والوں کے حلقے میں تاہم اس بارے میں بداعتمادی اب بھی گہری ہے۔ اس کے علاوہ فوکوشیما پلانٹ کے آپریٹر ٹیپکو پر حفاظتی کوتاہیوں کا الزام ہے جس نے مقامی آبادی کو بھی پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے۔
اس سال جنوری میں، ٹوکیو کی ہائی کورٹ نے TEPCO کے تین سابق ایگزیکٹیوز کی بریت کو برقرار رکھا، اور انہیں ناگہانی آفت کے حوالے سے پیشہ ورانہ لاپرواہی کے الزام سے مبرا قرار دیا۔
تاہم گزشتہ سال ایک الگ سول فیصلے میں، تینوں مذکورہ افراد کے علاوہ ایک اور سابق اہلکار فوکوشیما حادثے کو روکنے میں ناکامی پر مجموعی طور پر 13.3 ٹریلین ین یا 97 بلین امریکی ڈالر کا جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بھاری معاوضے کی رقم جاپانی دیوانی مقدمے کے لیے اب تک کی سب سے بڑی رقم ہے، حالانکہ وکلاء تسلیم کرتے ہیں کہ یہ مدعا علیہان کی ادا کرنے کی صلاحیت سے باہر ہے۔
ٹوکیو حکومت اس سال تباہ شدہ فوکوشیما پلانٹ سے 10 لاکھ ٹن سے زائد 'ٹریٹڈ واٹر‘ یا آلودگی سے پاک کرنے کے عمل سے گزارے گئے پانی کو سمندر میں چھوڑنے کا منصوبہ بھی رکھتی ہے۔
ک م/ ا ب ا(اے پی، روئٹرز)