جاپان میں تابکاری: خوراک کے لیے سنگین خطرات
21 مارچ 2011مغربی بحرالکاہل کے خطے کے لیے WHO کے منیلا میں قائم علاقائی دفتر کے ترجمان پیٹر کارڈنگلی نے ٹیلی فون پر خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں بتایا: ’’یقینی طور پر ہمیں ایک سنگین صورتحال کا سامنا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا: ’’شروع کے دنوں میں ہم نے سوچا تھا کہ یہ مسئلہ بیس سے لے کر تیس کلومیٹر تک کے دائرے ہی میں محدود رہے گا تاہم اب پتہ چلا ہے کہ یہ مسئلہ کسی بھی شخص کے اندازوں سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔‘‘
جاپانی حکام بار بار یہ یقین دلا رہے ہیں کہ خوراک میں تابکاری کے اثرات خطرناک حدوں تک نہیں پہنچے تاہم سبزیوں، گرد، دودھ اور پانی میں تابکاری ذرات کی موجودگی کے حوالے سے جاپان کے ساتھ ساتھ پورے خطے میں لوگوں کی بے چینی اور پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔
حکومت جاپان نے فوکوشیما اور اس کے نواحی علاقوں سے آئے ہوئے خام دودھ اور ایک اور قریبی علاقے سے آنے والی پالک کی فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے۔ آج پیر کو مزید مصنوعات پر پابندیاں لگائے جانے کا امکان ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے نمائندے کارڈنگلی کے مطابق اس عالمی ادارے کو ابھی اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں کہ فوکوشیما اور اُس کے نواحی علاقوں کی تابکاری سے آلودہ اشیائے خوراک دوسرے ملکوں تک بھی پہنچ رہی ہیں۔ تاہم کارڈنگلی کے مطابق حفظ ماتقدم کے طور پر یہی فرض کر لینا زیادہ محفوظ ہو گا کہ تابکاری سے متاثرہ کچھ نہ کچھ مصنوعات ضرور متاثرہ علاقے سے باہر بھی آئی ہیں۔
کارڈنگلی نے کہا کہ سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں، جہاں اس ادارے کا ہیڈکوارٹر ہے، ڈبلیو ایچ او کے ماہرین پوری صورتحال کو زیادہ بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور جلد ہی لوگوں کی رہنمائی کے لیے مزید ہدایات جاری کریں گے۔ تاہم کارڈنگلی کے مطابق ابھی یہ جانچنا بہت مشکل ہے کہ جاپان میں خوراک کی جن چند مصنوعات میں تابکاری کے اثرات پائے گئے ہیں، وہ واقعی ڈائیچی کے اُس پلانٹ کے قریب سے آئی ہیں، جسے زلزلے کے نتیجے میں شدید نقصان پہنچا تھا۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: مقبول ملک