جبری شادی: کم سن بیٹی کی قیمت ستر ہزار روپے
22 جولائی 2010آج بھی حوا کی بیٹیاں چند ہزار روپوں کے عوض بیچ دی جاتی ہیں۔ لالچ، غربت اور اسی طرح کے دوسرے عوامل ایسی صورتحال پیدا کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ شیخو پورہ کے ایک نواحی قصبے میں پیش آیا، جہاں ارشاد نامی، بھٹے پر کام کرنے والا ایک مزدور اپنی بیوی سے علیحدگی کے بعد ایک دوسرے گاؤں میں اپنے داماد کے ہاں مقیم تھا۔
اس نے اپنی بیوی کے ساتھ رہنے والی اپنی تیرہ سالہ بیٹی سعدیہ کو دھوکے سے اپنے پاس بلایا اور اسے ایک 55 سالہ شخص اعجاز کے ساتھ شادی کرنے پر مجبورکیا۔ تاہم شادی سے ایک دن پہلے یہ بچی گھر سے بھاگ کر لاہور پہنچ گئی، جہاں لاہور ہائی کورٹ نے جمعرات کے روز اس صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے اس کم سن لڑکی کو دوبارہ اس کی ماں کے حوالے کر دیا اور پنجاب حکومت کو سعدیہ اور اس کی والدہ کی حفاظت یقینی بنانے کی ہدایت کی۔
بچی کی والدہ کوثر بی بی نے ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس کا خاوند اپنے داماد سے مل کر دولت کے لالچ میں بیٹی کو فروخت کرنے پر تلا ہوا ہے اور اس کے شوہر ارشاد نے اس کام کے لیے تیس ہزار روپے پیشگی وصول بھی کر رکھے تھے جبکہ بقیہ رقم کی ادائیگی رخصتی کے وقت ہونا تھی۔ کوثر بی بی نے کہا کہ دولت کی ہوس میں اپنی بیٹیوں کو فروخت کرنے والے والدین کو پھانسی کی سزائیں دی جانی چاہیئں۔
سعدیہ کو مفت قانونی امداد فراہم کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم جوڈیشل ایکٹیوزیم پینل کے سربراہ اظہر صدیقی کہتے ہیں کہ پاکستان میں موثر قانونی سازی نہ ہونے کی وجہ سے کم عمری میں زبردستی کی شادیوں کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بچوں کی شادی کے لئے کم از کم عمر اٹھارہ سال مقرر ہے اور ایسی شادیوں کی روک تھام سے متعلق 1929 میں بنائے گئے Child Marriage Restraint Act کے مطابق اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کےلئے صرف ایک ماہ قید کی سزا مقرر ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ معصوم بچوں کو استحصال سے بچانے کے لئے متعلقہ قوانین کو موثر اور سخت بنانے کی ضرورت ہےکیونکہ غربت بھی جرائم کی ایک بڑی وجہ ہےجسےختم کرنا بھی ضروری ہے۔
جسٹس اعجاز احمد چوہدری پر مشتمل عدالت نے پنجاب حکومت سے کہا ہے کہ وہ ستائیس جولائی تک عدالت کو بتائے کہ اس ضمن میں قانون سازی بہتر کرنے کے لئے صوبائی حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: عصمت جبیں