جرمن الیکشن اور نوجوانوں کے سیاسی رجحانات
24 ستمبر 2009انفراٹیسٹ سروے کے مطابق بڑی جماعتیں نوجوان ووٹروں اور ان کی ترجیحات پر زیادہ توجہ نہیں دی رہیں اور جرمنی میں مستقبل کی سیاست میں نوجوان طبقہ نئی تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اٹھارہ سے چوبیس سال کے جرمن ووٹروں میں سے صرف آٹھ فیصد، چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت CDU کے حق میں ہیں جبکہ صرف نو فیصد کے خیال میں فرنک والٹر شٹائن مائر اور ان کی جماعت SPD بہتر ہیں۔
گو کہ ان نوجوان ووٹروں کے کسی جماعت کی حمایت کرنے یا نہ کرنے کا ان انتخابات پر کوئی واضح فرق نہیں پڑے گا کیونکہ جرمن انتخابات میں ان نوجوان ووٹروں کا تناسب صرف دس فیصد ہے تاہم مستقبل کی سیاست میں یہ نوجوان ایک نئے موڑ کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ یہ نوجوان جرمن ووٹرز دیوار برلن کے انہدام کے بعد پیدا ہوئے ہیں لہذا ان ووٹروں کی ترجیحات اور سیاسی دلچسپیاں بزرگ جرمن شہریوں جیسی نہیں۔
سروے رپورٹ جاری کرنے والے انفراٹیسٹ ادارے کے سربراہ رچرڈ ہیلمر کے مطابق ان نوجوان ووٹروں کی ترجیحات اور سوچ کا خیال نہ تو انگیلا میرکل نے رکھا ہے اور نہ ہی شٹائن مائر نے، کیونکہ ان کی تعداد فی الحال قابل توجہ نہیں سمجھی جا رہی۔
’’دونوں اہم امیدواروں نے ان نوجوانوں کو متوجہ کرنے کے لئے اقدامات نہیں کئے۔ ان نوجوانوں کوکچھ نیا دیکھنے کو نہیں ملا۔‘‘
انفراٹیسٹ کے مطابق ان نوجوانوں کا رجحان حال ہی میں منظر عام پر آنے والی پائریٹ پارٹی کی جانب زیادہ ہے۔ اس پارٹی کا انتخابات میں نعرہ ہے کہ انٹرنیٹ پر سینسر شپ کو ختم ہونا چاہئے۔ رواں ماں جرمن سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ سٹوڈئے فاؤ زیٹ کے مطابق دو لاکھ ممبران نے ایک الیکشن سروے میں حصہ لیا اور ان افراد نے پائریٹ پارٹی کی حمایت کی۔
انفراٹیسٹ سروے کی اس تازہ رپورٹ کے مطابق 28 فیصد نوجوان ووٹروں کے خیال میں نئے گروپوں کی حمایت کی جانی چاہئے، جنہیں اب تک جرمنی کے وفاقی پارلیمان کے ایوان زیریں میں جگہ نہیں ملی۔ سروے کے مطابق جرمن پارلیمان میں اس وقت موجود جماعتوں میں گرین پارٹی کو سب سے زیادہ نوجوان ووٹروں کی حمایت حاصل ہے۔
جرمن شہریوں کی اس وقت عمر کا اوسط بیالیس سال ہے، جس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جرمنی میں بزرگ شہری ووٹروں کا ایک تہائی ہیں۔
SPD کے انتخابی اشتہارات میں چمکتے سفید بالوں والے شٹائن مائر کو بزرگوں کے ہمراہ دکھایا گیا ہے۔ وہ اشتہار میں پینشن لینے والے بزرگ شہریوں کے درمیان گھلے ملے دکھائی دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ ان کے مفادات کا خیال رکھیں گے۔
نوجوان ووٹروں کی توجہ اور ان سے تخاطب میں امریکی انتخابات کی مثال واضح ہے جہاں نوجوانوں نے صدر باراک اوباما کی انتخابی مہم کو چند ہی دنوں میں ملک کے کونے کونے میں پھیلا دیا۔ باراک اوباما کی انتخابی مہم کا نعرہ تھا ’’Yes We Can‘‘ یعنی ہاں ہم کر سکتے ہیں۔ یہ نعرہ نوجوانوں میں اتنا مقبول ہوا کہ اوباما کی مقبولیت کے گراف کو ان نوجوانوں نے کسی طور کم نہ ہونے دیا۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: عدنان اسحاق