جرمن حکومت نے افغان مہاجرین کی ملک بدری پھر روک دی
24 جون 2017نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق وفاقی جرمن حکومت نے ایک خصوصی پرواز کے ذریعے جرمنی میں پناہ کے مسترد شدہ افغان درخواست گزاروں کو واپس ان کے ملک بھیجنے کا منصوبہ ایک مرتبہ پھر روک دیا ہے۔
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری پھر سے شروع
سوچا نہ تھا کہ یورپی پولیس اتنی ظالم ہو گی، پاکستانی تارک وطن
جرمن ہفت روزہ جریدے ’ڈیئر اشپیگل‘ نے وفاقی حکومتی ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ افغان مہاجرین کو آئندہ ہفتے بدھ کے روز ایک خصوصی پرواز کے ذریعے لائپزگ سے کابل پہنچایا جانا تھا تاہم اب یہ منصوبہ غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے۔
اشپیگل کے مطابق حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ کابل میں ہونے والے ایک بم حملے میں جرمن سفارت خانے کو بری طرح نقصان پہنچا تھا جس کے باعث جرمن سفارت خانہ ایسے افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے بروقت تیاری نہ کر پایا اور اسی وجہ سےایک خصوصی پرواز کے ذریعے افغان تارکین وطن کی واپسی کا منصوبہ فی الحال روک دیا گیا ہے۔
جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ نے ایک چارٹرڈ طیارے کے ذریعے افغان باشندوں کی وطن واپسی کے اس منصوبے کی تصدیق نہیں کی تھی۔ رپورٹوں کے مطابق تصدیق نہ کرنے کی وجہ افغان تارکین وطن کی ملک بدری کے خلاف ممکنہ مظاہروں سے بچنا تھا۔
جرمنی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری کا معاملہ کافی متنازعہ ہے۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیمیں اور کئی اہم سیاسی رہنما بھی ایسے منصوبوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔ تاہم جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ ملکی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے اور جرائم پیشہ افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری ہر صورت میں کی جائے گی۔
کابل میں ہونے والے بم حملوں کے بعد جرمنی کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا سلسلہ روکتے ہوئے کہا تھا کہ جرمن وزارت خارجہ افغانستان کی سکیورٹی صورت حال کا از سر نو جائزہ لے گی، جس کے بعد پھر سے افغان شہریوں کی ان کے وطن واپسی بحال کرنے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔
تاہم بائیس جون کو اشپیگل اور جرمنی کے عوامی نشریاتی ادارے این ڈی آر نے اپنی رپورٹوں میں بتایا تھا کہ برلن حکومت نے افغان تارکین وطن کی ملک بدری کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
کس یورپی ملک میں زیادہ پاکستانی مہاجرین کو پناہ ملی؟
پاکستانی تارکین وطن کی واپسی، یورپی یونین کی مشترکہ کارروائی